حیدرآباد و تلنگانہ مذہبی گلیاروں سے

اعتکاف، نفس کی خرابیوں کو دور کرنے اور رضائے الٰہی پانے کا آسان طریقہ

نوجوان نسل کو اعتکاف کی طرف راغب کرنے کی ضرورت۔ مولانا ممشاد پاشاہ کا خطاب

حیدرآباد 22اپریل (راست) اعتکاف بہت ہی قدیم اور انتہائی اہمیت کا حامل عمل ہے،اعتکاف کے بے شمار فضائل ہیں لیکن حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے یہی کافی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کا اہتمام فرماتے۔ اعتکاف کا مقصد یہی ہے کہ بندہ اپنے رب تعالیٰ کا قرب اور رضا حاصل کرلے۔ویسے تو اس کی وابستگی بظاہر نو یا دس دن کی ہوتی ہے لیکن نتیجتاًبندہ کا اپنے رب تعالیٰ سے اس قدر مضبوط رشتہ استوار ہوجاتا ہے کہ زمانے کی کوئی بھی گردش اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات ظاہری عطا فرمائی۔ان خیالات کا اظہار نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ عربی زبان میں اعتکاف کا مطلب رکنا اور تھم جانا ہے اور اصطلاحِ شرعی میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کسی مرد یا عورت کا اپنے معتکف میں قیام پذیر ہوجانا اعتکاف کہلاتا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک کر ادب و احترام سے بیٹھ رہنے کا نام اعتکاف ہے۔فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ اعتکاف کی خوبیاں بالکل ہی ظاہرہیں کیونکہ اس میں بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مکمل طور پر اپنے آپ کواللہ تعالیٰ عبادت میں منہمک کر دیتا ہے اوران تمام مشاغل دنیا سے کنارہ کش ہوجاتاہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہ میں حائل ہوتے ہیں اورمعتکف کے تمام اوقات حقیقۃ ًیا حکما ًنماز میں گزرتے ہیں،اور اعتکاف کا مقصودِ اصلی جماعت کے ساتھ نماز کا انتظار کرناہے اورمعتکف ان(فرشتوں) سے مشابہت رکھتاہے جواللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو کچھ انہیں حکم ملتاہے اسے بجالاتے ہیں اور ان کے ساتھ مشابہت رکھتاہے جوشب و روزاللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے رہتے ہیں اوراس سے اکتاتے نہیں۔اعتکاف کی تین اقسام ہوتی ہیں جن میں سنت، مستجب اور واجب شامل ہیں۔اعتکاف سنت میں مسلمان رمضان کے آخری دس دن دینا سے کٹ کر صرف اللہ کی عبادت میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اس کا ایک خاص مقصد رمضان کی طاق راتوں میں عبادت کرنا بھی ہے۔اعتکاف مستجب کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں یہ کبھی بھی ایک دن یا چند گھنٹوں کے لیے بھی کیا جاسکتا۔ مثال کے طور پر انسان مسجد میں داخل ہو اور اعتکاف کی نیت کرلیں تو تمام عبادت کا ثواب اعتکاف کے برابر ہی ہوگا۔اعتکاف واجب میں روزہ بھی رکھنا ہوتا ہے اور یہ اس صورت میں کیا جاتا ہے جب انسان نے کوئی منت مان رکھی ہو کہ اگر میرا یہ کام ہوگیا تو میں اعتکاف کروں گا۔ اعتکاف کا فوری فائدہ تو یہ ہے کہ یہ معتکف کو گناہوں سے باز رکھتا ہے۔کیونکہ اکثر گناہ غیبت، جھوٹ اور چغلی وغیرہ لوگوں سے اختلاط کے باعث ہوتی ہے معتکف گوشہ نشین ہے اور جو اس سے ملنے آتا ہے وہ بھی مسجد و اعتکاف کا لحاظ رکھتے ہوئے بری باتیں نہ کرتا ہے نہ کراتا ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایاکہ معتکف گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔ یعنی معتکف اعتکاف کی وجہ سے جن نیکیوں سے محروم ہوگیا جیسے زیارتِ قبور مسلمان سے ملاقات بیمار کی مزاج پرسی، نمازِ جنازہ میں حاضری اسے ان سب نیکیوں کا ثواب اسی طرح ملتا ہے جیسے یہ کام کرنے والوں کو ثواب ملتا ہے۔اعتکاف کرنے والا اتنا پاکیزہ و برگزیدہ ہوجاتا ہے کہ حضرت امام زین العابدین ؓ اپنے والد سید نا امام حسین ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔حضرت خواجہ حسن بصری ؓ سے منقول ہے کہ معتکف کو ہر روز ایک حج کا ثواب ملتاہے۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ اعتکاف اسی وقت ایک عظیم الشان عمل بن سکتا ہے جب معتکف اس کو اس کی روح کے مطابق سرانجام دے۔ اعتکاف کی سعادت حاصل کرنے کے بعد بندۂ مومن کو اس بات کا مزید احساس ہوتا ہے کہ اس دنیا و آخرت میں صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے جو اس کو کبھی تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!