بہار

مجدد الف ثانی نے دین الہٰی و فتنئہ اکبری کا سد باب کیا۔ صوفی شمیم الدین نقشبندی

  • مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی تعلیمات و پیغامات کو عام کرنا وقت کی اہم ضرورت

موتی ہاری (انیس الرحمن چشتی)

خانقاہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ بلواٹال موتی ہاری میں امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ الاسلام والمسلمین حضرت سیدنا شیخ احمد سرہندی نقشبندی علیہ الرحمۃ والرضوان کا ٤٥ واں عرس مبارک روایتی شان و شوکت کے ساتھ منایا گیا۔ اس موقع سے قرآن خوانی و تقسیم لنگر و تبرکات ، چادر پوشی و گل پوشی ہوئی۔ اس موقع سے محفل پاک کا انعقاد کیا گیا۔ محفل کا آغاز حافظ و قاری مخدوم علی احمد رضوی نے تلاوت قرآن کریم سے کیا۔ مدرسہ کے طلباء نے حمد ونعت اور منقبت کے گلدستے پیش کیے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خانقاہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ بلواٹال کے سجادہ نشیں صوفی شمیم الدین نرالا نقشبندی نے کہا کہ بانی خانقاہ حضرت صوفی سید منظور الحق شاہ نقشبندی مجددی علیہ الرحمہ نے عرس مجددی کی بنیاد رکھی اور آپ کی تعلیمات و پیغامات حقہ کو عام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ عالم ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی نقشبندی علیہ الرحمۃ والرضوان نے مذہب اسلام کی تحفظ و بقا کی خاطر بے شمار آفات و مصائب کا سامنا کیا۔ وقت کے بڑے بڑے بادشاہوں کے مد مقابل ہوئے۔ دربار جہانگیری میں ہورہے سجدۂ تعظیمی کی سخت مخالفت کی۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کر دیا گیا۔ لیکن آپ نے صبر و استقامت کی بہتر مثال پیش کی اور جیل کے اندر ہی سینکڑوں افراد کو راہ مستقیم پر گامزن کردیا۔ سرہند شریف کے علاقے میں نو انبیاء کرام کے مزارات مقدسہ ہیں جن کی نشاندہی حضرت سیدنا شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے کی تھی اور ان کے نام مبارک بھی بتائے۔ حضرت شیخ کا آستانہ آج بھی مرجع خلائق ہے۔ آپ کا فیضان جاری و ساری ہے۔ مقرر خصوصی حضرت مولانا انیس الرحمن چشتی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انبیاء و رسل کے بعد دین متین کی تبلیغ واشاعت کی ذمہ داری علماء ومشائخ کے کاندھوں پر آئی۔ ان علماء کو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جانشین و وارث بنایا ہے۔ ہر دور میں ان معزز شخصیات نے مذہب و ملت کی ترویج و اشاعت کا کام انجام دیا ہے۔ عالم ربانی حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی ذات با برکات سے ایک عالم مستفید و مستفیض ہو رہا ہے۔ آپ کی ولادت باسعادت حضرت شیخ عبد الاحد فاروقی سرہندی علیہ الرحمہ کے گھرانے میں 971 ہجری کو ہوئی۔ علوم عقلیہ و نقلیہ سے فارغ ہو کر دین متین کی تبلیغ و ترویج میں مصروف ہوئے۔ اکبر بادشاہ کے رائج کردہ مصنوعی دین الہٰی کی سخت مخالفت کی اور بادشاہ وقت کے عتاب کے شکار ہوئے۔ ہزاروں مصائب و آلام کو برداشت کیا لیکن دین اکبری کا نام و نشان مٹا کر رکھ دیا۔ دنیا کے ہر گوشے میں آپ کے خلفاء و تربیت کردہ مریدین پہونچے اور دین متین کی تبلیغ و ترویج کا کام انجام دیا۔ مولانا اعظم رضا فریدی چترویدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت سیدنا شیخ مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی ذات گرامی نے سرزمین بھارت پر دین اکبری کا قلعہ قمع کیا۔ اور مختلف ممالک میں تبلیغ و اشاعت کا کام انجام دیا۔ شریعت و طریقت کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کی تاکید فرمائی۔
اس موقع سے مولانا غلام دستگیر برکاتی، مولانا عالمگیر برکاتی، قاری عامر رضا، قاری اختر رضا نوری، امام الحق خان صدر، محمد ارمان خان منتظم، ماسٹر نظام الدین، ماسٹر کلیم الدین، نسیم الدین اور خانقاہ کے اراکین و عہدیداران سمیت سینکڑوں فرزندان توحید موجود تھے۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے