بلیا: 30 جولائی، ہماری آواز(راست) سانحہ کربلا کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ایک طرف نواسہ رسول امام حسین کا سر قلم کرکے اور آل رسول پر ظلم ڈھاکر دنیا میں دھاگ جمانے کا خواب دیکھنے والوں کا گروہ تھا تو دوسری طرف سر کٹا کر اسلام کی حقانیت کا پرچم بلند کرنے والوں کا پاک گروہ تھا ایک کے حصے میں اللہ کی رحمت آئی اور عالم اسلام کی عقیدت و محبت آئی اور دوسرے کی حصے میں لعنت آئی نتیجہ یہ ہوا کہ آج دنیا بھر میں ایسے لوگ ملیں گے جن کے ناموں میں حسین لگا ہے لیکن آج کوئی یزید نام کا آدمی نہیں ملتا-
مشہور قلمکار جاوید اختر بھارتی نے مذکورہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام کے مہینے سے ہوتا ہے اور اختتام ذوالحجۃ کے مہینے سے ہوتا ہے یعنی قربانی سے شروع اور قربانی پہ ختم اب جسے آل ابراہیم اور آل رسول کامطلب سمجھنا ہے وہ آتش نمرود سے لے کر واقعات کربلا تک غور کرے تو سب کچھ سمجھ میں آجائے گا کیونکہ میدان کربلا میں نمرودی تیور سے لے کر ایوبی صبر تک کا منظر نظر آئے گا جتنے بھی انبیاء و صحابہ کا ظالموں سے ٹکراؤ ہوا ہے تو ظالم کی نیت کا دارومدار دنیاوی مقاصد پر تھا اور انبیاء و صحابہ کا مقصد دین کی سربلندی تھا اور اسی دین کی اصلیت کو برقرار رکھنے کی خاطر امام عالی مقام نے اپنا اور کنبے کا سر کٹا دیا ورنہ معاملہ تو اتنا ہی تھا کہ بیعت کرو جان بچاؤ مگر نانا کی گود میں پلنے والے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جانتے تھے کہ ہاتھ دے کر سر اور جان بچانے کا مطلب کہ نانا کا دین اصلی شکل میں موجود نہیں رہے گا اس لئے سر دے کر ہاتھ بچانا ضروری ہے کیونکہ ہمارا ہاتھ ایک مہر و سند ہے اور اس مہر و سند کو بچانے میں ہی دین کی بھلائی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ سر کٹنے کے بعد بھی نیزے پر بلند ہوکر دین اسلام کی صداقت بلند کرتا رہا اور ظلم و جبر و دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کرتا رہا یزید بظاہر بھلے ہی جنگ جیتا ہو مگر اس کے ناپاک عزائم و ارادے اور مقاصد و منصوبے سب موت کے گھاٹ اتر گئے آج اس کے لئے کچھ باقی ہے تو صرف لعنت باقی ہے۔