گونڈہ: 30 اپریل
گزشتہ دو سال میں کورونا وائرس نے حیات انسانی کے نظام کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا تھا۔ آمد و رفت ٹھپ ہوچکا تھا، مثل قیدی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ قبل از کووڈ انیس رمضان المبارک کی بہاریں اور اس کی پاکیزہ رونقیں یقینا قابل دید و محسوس تھیں۔ آج جب کہ بفضلہ الہی فضا صاف و شفاف اور شفا بخش معلوم ہوتی ہے تو الحمد للہ رب العالمین ماہ صیام کی رونق بھی خوشنما لگ رہی ہے۔ بارگاہ صمدیت مآب عزوجل میں دست بدعا ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے اس بار ہم سبھی مسلمانوں کو عید گاہ میں نماز عید کی ادائیگی کا موقع عطا فرمائے (آمین) ۔
مذکورہ خیالات کا اظہار حضرت العلام الشاہ حافظ و قاری مولانا ناصر رضا صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ نے ایک تقریب میں کیا۔ مزید آپ نے فرمایا کہ جو حضرات شرعاً کسی مجبوری کی بنیاد پر روزہ نہیں رکھ سکتے تو وہ اس ماہ مقدس کے پاکیزہ احترام کو پامال نہ کریں، سر عام قطعی کوئی بھی کچھ نہ کھاۓ پیئے۔ اگر ایسا کرتے ہو تو غضب الٰہی کے مستحق ہوگے۔ بے شک اس ماہ کا احترام کرنے میں جتنا ثواب ہے، اس سے کئ گنا گناہ اس کی تعظیم و تکریم نہ کرنے میں ہے۔ لہٰذا ہم سب حضرات ایک لمحہ بھی اس کی تعظیم سے قطعی غافل نہ ہوں۔ کیوں کہ یہ حصول رضاۓ الہی کا بہت پر اثر ذریعہ ہے اور نجات سفینہ بھی۔
عالی جناب حضرت علامہ و مولانا آصف جمیل قادری امجدی صاحب قبلہ دام اقبالہ نے اپنے بیان کے دوران فرمایا کہ رمضان المبارک کو خداۓ تعالیٰ نے تین زاوئیے پر منقسم فرمادیا ہے اس کا پہلا عشرہ رحمت الٰہی سے لبریز و سرشار ہوتا ہے، جب کہ دوسرا عشرہ مغفرت و بخشش کا پروانہ اپنے معطر دامن میں سمیٹے ہوتا ہے، اور آخری عشرہ (جو عید الفطر کا عین پڑوسی ہوتا ہے) اس کی عظمت بیش بہا ہوتی ہے یعنی "جہنم سے آزادی کا حسین لمحہ ہوتا ہے” اس پورے ماہ میں فضل الٰہی سایہ فگن ہوکر باران رحمت نازل کرتی رہتی ہے۔
مزید آپ نے فرمایا کہ اس بابرکت مہینے کی عظیم خصوصیت یہ بھی ہے کہ بڑے بوڑھے لوگ اور خواتین تو روزے سے رہتے ہیں۔ ہماری قوم کے ننھے ننھے بچے سات آٹھ سال کے وہ بھی شوق و ذوق میں روزہ رکھ لیتے ہیں۔ اس کی رحمت و برکت چھوٹے بڑے سب کے لیے ہے۔ اور آپ نے عید گاہ کی صاف صفائی کے متعلق لوگوں کی یاد دہانی کرائی، کہا کہ ان شاءاللہ اس بار ہم لوگ عید الفطر کی نماز عیدگاہ میں پر امن طریقے سے اجتماعی طور پر ادا فرمائیں گے۔