حیدرآباد و تلنگانہ

روزہ صرف ایک عمل نہیں، انسانی تربیت کا شاہکار، روزہ کی مقصدیت کو زندہ کرنے ضرورت: مولانا ممشاد پاشاہ کا خطاب

حیدرآباد 16اپریل(راست) روزہ اللہ تعالی کی ایک ایسی روزہ ارکان اسلام میں تیسرا بنیادی رکن ہے جس کی پابندی شہادت توحید و رسالت اور نماز کے بعد فرض کا درجہ رکھتی ہے،یہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں بندہ حکم الٰہی کو بجالاتا ہے اور اپنی پسندیدہ و محبوب چیز کو چھوڑ کر اللہ تعالی کا قرب حاصل کرتا ہے، اسی طرح روزہ سے بندے کے ایمان کی سچائی، اللہ کی عبودیت میں اسکے کمال، اللہ تعالی کی محبت میں اسکی پختگی اور اللہ تعالی کے ثواب و نعمت کی امید کا ظہور ہوتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے رب کی رضا مندی اس میں ہے کہ وہ اپنی من پسند چیزوں کو ترک کردے۔ ان خیالات کا اظہار نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم، مسجد محمودیہ ناغڑ،یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ روزے کی فرضیت کا حکم دوسری صدی ہجری میں تحویلِ کعبہ کے واقعہ سے دس روز بعدماہِ شعبان میں نازل ہوا،روزے صرف امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی نہیں بلکہ اممِ سابقہ پر بھی فرض کئے گئے اور روزے کا مقصد تقویٰ ہے یعنی روزہ انسان میں تقویٰ پیدا کرتا ہے۔روزہ بظاہر ایک مشقت والی عبادت ہے لیکن حقیقت میں اپنے مقصد اور نتیجے کے لحاظ سے یہ دنیا میں موجب راحت اور آخرت میں باعث رحمت ہے۔روزہ ہر بالغ مسلمان مرد اور عورت پدونوں پر یکساں طور پرفرض ہے اور بغیر کسی سخت مجبوری کے، اس کو چھوڑنے کی اجازت نہیں ِہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے اور ان کی اُمتیں آئیں ان پر روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں لیکن اس کی صورتیں ہمارے روزے سے مختلف تھی یعنی روزہ بڑی پرانی عبادت ہے اور گزشتہ اُمتوں میں کوئی اُمت ایسی نہیں گزری جس پر اللہ تعالیٰ نے ہماری طرح روزے فرض نہ کیے ہوں۔ روزہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ حضو راقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے‘ جس طرح ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ہو۔حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آدم کے بیٹے کا نیک عمل کا اجر جتنا اللہ چاہے بڑھا دیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ اس سے مستثنیٰ ہے‘ کیونکہ وہ میرے لئے ہے۔ اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔روزے کی اس قدر فضیلت کے جو اسباب ہیں ان میں چند یہ ہیں کہ روزہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتا ہے اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا جبکہ دوسری عبادتوں کا یہ حال نہیں ہے کیونکہ ان کا حال لوگوں کو معلوم ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ خالص اللہ کے لئے ہی ہے، روزے میں نفس کشی، مشقت اور جسم کو صبر و برداشت کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس میں بھوک، پیاس اور دیگر خواہشاتِ نفسانی پر صبر کرنا پڑتا ہے جبکہ دوسری عبادتوں میں اس قدر مشقت اور نفس کشی نہیں ہے،روزہ میں ریاکاری کا عمل دخل نہیں ہوتا جبکہ دوسری ظاہری عبادات مثلاً نماز، حج، زکوٰۃ وغیرہ میں ریاکاری کا شائبہ ممکن ہے،کھانے پینے سے استغناء اللہ کی صفات میں سے ہے۔ روزہ دار اگرچہ اللہ کی اس صفت سے متشابہ تو نہیں ہو سکتا لیکن وہ ایک لحاظ سے اپنے اندر یہ خلق پیدا کر کے مقرب الٰہی بن جاتا ہے،روزہ کے ثواب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں جبکہ باقی عبادات کے ثواب کو رب تعالیٰ نے مخلوق پر ظاہر کر دیا ہے،روزہ ایسی عبادت ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا حتی کہ فرشتے بھی معلوم نہیں کر سکتے، روزہ کی اضافت اللہ کی طرف شرف اور عظمت کے لئے ہے جیسا کہ بیت اللہ کی اضافت محض تعظیم و شرف کے باعث ہے ورنہ سارے گھر اللہ کے ہیں،روزہ دار اپنے اندر ملائکہ کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے وہ اللہ کو محبوب ہے اورجزاءِ صبر کی کوئی حد نہیں ہے اس لئے رمضان کے روزوں کی جزاء کو بے حد قرار دیتے ہوئے اللہ نے اس کو اپنی طرف منسوب کیا کہ اس کی جزاء میں ہوں۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ روزہ کو جس پہلو سے دیکھا جائے جیسے سیاسی اعتبارسے،فوجی اور سپاہیانہ نقطہئ نظر سے، اقتصادی لحاظ سے، اخلاقی اعتبار سے، روحانی ترقی کے اعتبار سے، جسمانی صحت کے لحاظ سے مفید ہی مفید ہے،لیکن یہ سب مقصود بالذات نہیں ہیں،اس لئے روزہ دار کو ان فوائد کے حصول کی نیت سے روزہ نہیں رکھنا چاہئے بلکہ محض تعمیل ِ حکم خداوندی کے مقصد سے رکھنا چاہئے، تبعاً یہ سب مادی فوائد بھی حاصل ہوجائیں گے۔ آخر میں اجتمائی طور پرسورۂ فاتحہ و سورۂ اخلاص کی تلاوت کی گئی اورسیدۂ کائنات سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ہدیہ غلامی پیش کیا گیا۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے