از قلم: ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی، پٹنہ
رابطہ نمبر 9350365055
عمومی طور پر سرکاری او رغیرسرکاری تعلیمی ادارے اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ وہ اپنی تعلیمی سرگرمیوںکو جاری رکھنے کے لئے کچھ افراد کو بطور گیسٹ ٹیچر کے بحال کریں ادھر بے روزگاری کی مار جھیل رہے تعلیم یافتہ افراد بھی اس فراق میں رہتے ہیں کہ مستقل نہ سہی غیر مسقتل ہی کہیںشعبہ تعلیم وتدریس سے جڑ جائیں۔ اس زمینی سچائی سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ھیکہ اسکول کالیجیز اور بورڈ کے تمام علمی اداروں میں ان مہمان ٹیچروں کااچھا خاصا خیال بھی رکھا جاتا ہے اور ان کے حقوق کا اصول بھی تحریری شکل میں موجود ہے ۔بہار میں شکچھا متروں کی بحالی بھی ایسے ہی ہوئی تھی مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان ٹیچروں کی مانگ اور حکومت کی فراخ دلی سے ان کی حالتوں میں کافی حد سدھار ہوا ہے اور آج وہ ایک مقررہ عمر تک کے لئے محفوظ ہیں انہیں ہٹا ئے جا نے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے اور ان کے مشاہرے میں بھی اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ ضروریات زندگی کی کفالت ہو سکتی ہے ۔یونیورسیٹیز میں مستقل اور غیر مستقل دونوںاساتذہ کی بحالی کے لئے یو ،جی ،سی نے ایک رہنما اصول وضع کیا ہے جس میں عمر ،اشتہار ،پے اسکیل اور اہلیت کی پوری وضاحت موجود ہے وقتاًفوقتاًاس میں حذف و اضافہ بھی ہو تا رہتا ہے ملک کی تمام یونیورسیٹیاں اس اصول کے مطابق اشتہار نکالتی ہے اور تقرری کے مراحل کی تکمیل کرتی ہے مرکزی یونیورسیٹیاں یو جی سی کے اصول کی پابندی کے ساتھ اساتذہ کی تقرری کے لئے خود مختار ہیں صوبائی یونیورسیٹیاں تدریسی عملہ کی تقرری کے معاملے میں غالباً بہت کم اختیار رکھتی ہے بالخصوص بہار کی یونیورسیٹیزکو اسسٹینٹ پروفیسر کی تقرری کا غالباً کوئی اختیار نہیں ہے مگر اساتذہ کی قلت کی وجہ سے 2018 میں یو ،جی ،سی کے رہنما اصول کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے ہو ئے گیسٹ فیکلٹی کو بحال کیا تھا سیلیکشن اتنی معیاری ہو ئی تھی کہ مستقل جگہوں کے لئے انٹر ویو دے چکے امیدواروں کا کہنا تھا کہ مستقل ٹیچر کے انٹر ویو دینے سے زیادہ مشکل یہاں کا غیر مستقل جگہوں کا انٹر ویو تھا تمام امیدواروں نے تقرری کی شفافیت پر اظہار اطمینان کیا اور ایک موہوم امید پر انتہائی جانفشانی کے ساتھ اپنے کاموں میں لگ گئے ان گیسٹ فیکلٹی کی وجہ سے بہار کی یونیوسیٹیو ں میں تدریسی بہار لوٹ آئی ، اب سیاسی گلیاروں میں یہ بات گردش کررہی ہے کہ BPSC اور BSUSC کے ذریعے مستقل اساتذہ کی بحالی کے بعد انہیں رخصتی دے دی جائے گی اب آئیے ذرا ہندوستان کی یونیورسیٹیوں میں ہونے والی بحالیوں کا زمینی جائزہ لیتے ہیں
یو جی سی کے تمام تر ضوابط کے باوجود خود مختار اور مرکزی یونیورسیٹیوں کی بحالی میں معزز صدر جمہوریہ کے نمائندہ کی موجوگی کے باوجود ترجیح اس امیدوار کو دی جاتی ہے جو پہلے سے بطور گیسٹ فیکیلٹی تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہوں اس کے مقابلے میں خواہ کتنا ہی قابل امیدوار کیوں نہ ہو سیلیکشن کمیٹی پہلے سے کام کررہے امیدوارں کامکمل خیال رکھتی ہے اب تو حال یہ ہے کہ جب کہیں اسسٹنٹ پروفیسر کی جگہ نکلتی ہے تو امیدوار درخواست دینے سے پہلے یہ معلومات حاصل کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ جتنی جگہیں نکلی ہیں اتنے گیسٹ فیکیلٹی وہاں پہلے سے کام تو نہیں کررہے ہیں اگر جواب نفی میں ہوتا ہے تو درخواست دیتے ہیں ورنہ درخواست کی فیس اور ڈاک خرچ کرنا عبث سمجھتے ہیں اس کے باوجود بھی اگر کوئیدرخواست دے تو ذی شعور کی دنیا میں وہ بڑا احمق سمجھا جاتا ہے انٹرویور بھی ایسے امیدوار ںکا خاموش مذاق اڑاتے ہیں کسی تنقید کی گنجائش اس لئے نہیں ہے کہ پہلے سے کام کرنے والے افراد کا خیال رکھاجاتاہے اور ہم خدمات کے عتراف کئے جا نے کے مخالف بھی نہیں ہیں اسی درد کا احساس حال ہی میں بہار اسمبلی میں رکن اسملی سنجے کمار سنگھ نے معزز وزیر تعلیم کی موجودگی میں کی اور کہا کہ ان گیسٹ فیکیلٹی کی بحالی یو جی سی کے اصول کی مکمل پاسداری کے ساتھ کیا گیا ہے لہذا انہیں مستقل کر دیا جائے یا کم از کم بی پی ایس سی یا یونیورسیٹی کمیشن کے ذریعے بحالی میں انہیں رعایت دی جائے مگر ٓ ٰمعزز وزیر تعلیم نے یہ کہہ کر اس تجویز کو مسترد کر دیا کہ انہیں مستقل کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے اتنے حساس معاملے پر ان کا اس طرح پلہ جھاڑ لینا مناسب نہیں ہے اس لئے کے یہ بات مجلس قانون ساز میں رکھی گئی تھی جو اسی غرض سے قائم ہوئی ہے کہ جن اہم معاملات کی قانونی رہنمائی موجود نہ ہو اس کے لئے نئے قانون وضع کئے جائیں۔ اس لئے اسمبلی,معزز وزیر تعلیم اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور وفکر کرے۔ بہار جیسے علمی صوبہ کا المیہ یہ ہے کہ آج بھی یہاں کی اعلی تعلیم گاہوں میں اساتذہ کی شدید قلت ہے جس کی وجہ سے یہاں کی یونیورسیٹیاں داد تحقیق دینے کے معاملے میں دیگر صوبوں کی یونیورسیٹیوں سے بہت پیچھے ہے جب کہ دوسری ریاستی اور مرکزی ہونیورسیٹیوں کے نام کو روشن کر نے والے میں اس صوبہ کے افرادکی تعداد کسی سے کم نہیں ہے موجودہ حکومت اس معاملے میںانتہائی حساس ہے اعلی تعلیم کی ضرورتوں پر نگاہ رکھی جائے اور اسے پو را کر نے کے لئے مستعد رہا جائے یہی وجہ ہے کہ معزز وزیر اعلی بہار نے کرائے پر چلنے والی ہونیورسیٹیو ں کو فلک بوس عمارتیں دی ہیں اور ساتھ ہی تدریسی عملہ کی کمی کو دور کر نے کے لئے مدتوں بعد انہوں نے 2014 میں 3364 اسسٹنٹ پروفیسر کی ویکینسی نکالی مگر سست روی کی وجہ سے اس کی تقرری کا عمل اب تک پورا نہیں ہو سکاہے اب بھی 12 مضامین میں تقرری کا عمل قانونی موشگافیوں کا شکار ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان مضامین کے پڑھنے والے طلباء کو کس قد
ر
دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا حال ہی میں بہار یونیورسیٹی کمیشن نے 4638 اسسٹنٹ پروفیسر کا اشتہار نکالاہے ماہرین کا کہنا ھیکہ اس کی تکمیل میں بھی کئی سال لگ جائینگے جب کہ اتنی ہی اور جگہیں مزید اسے نکالنی ہے کل ملا کر 9000 اسسٹنٹ پروفیسر کی تقرری کی ذمہ داری فی الوقت BSUSC کے سر ہے اور اس پورے مراحل کی تکمیل میں تقریبا دس سال لگ جائینگے اور مزید اتنی ہی جگہیں آئندہ خالی بھی ہوجائینگی بحالی میں دیری سے نہ صرف طالب علم کا نقصان ہے بلکہ یونیورسیٹی کے معیار کو بھی شدید خطرہ ہے اس لئے کہ یو جی سی نے فرمان جاری کیا ہے کہ جو جامعات NAACکے معیار پر پورا نہیں اترے گا اس کا درجہ کتم کر دیا جائے گا بلا شبہ فی الوقت بہار کی ان یونیورسیٹیوں کے معیار کو قائم رکھنے میں ان گیسٹ فیکلٹی نے اہم کردار ادا کیا ہے جنہیں سبکدوش کرنے کے لئے ارباب اختیار پر تول رہے ہیں مگر انکی حالتوں پر نہ تو بہار کی یونیورسیٹیوں کے چانسلر معزز گورنر نے غور کیا اور نہ ہی عزت مآب وزیر اعلی اور نہ ہی وزیر تعلیم نے فکر کی انہیں صرف کلاس کی ہی تنخواہیں ملتی رہیں اور بعض کو ہم نے دو مہینے میں ہینڈ سم اماؤنٹ کی شکل میں 2000 روپئے ملتے دیکھا آپ اندازہ کرسکتے ہیں انکے اہل خانہ اور خود ان پر کیا بیتی ہوگی مگر وہ امانتداری سے یونیورسیٹی حاضر ہوتے رہے اور اب بھی ہورہے ہیں اور طلباء کو مستفید کررہے ہیں مگر انہیں انعام کی شکل میں مستقل فرد کی بحالی کے بعد الواعی کا تحفہ ملنے والا ہے یہی لوگ اگر دوسری یونیورسیٹیوں میں کا م کررہے ہوتے تو وہ ایک مضبوط امیدوار ہوتے بہار میں اسسٹنٹ پروفیسر کی تقرری BPSC یا BSUSC کرے گی یونیورسیٹی کا کوئی رول نہیں ہوگا جو خوش قسمتی سے سلیکٹ ہوگئے ہوگئے جو نہیں ہوئے بڑی آسانی سے ان کے کئی سالہ خدمات کا گلا گھونٹ دیا جائے گا اسی درد کو محسوس کرتے ہوئے ممبر رکن اسملی سنجے کمار سنگھ نے مجلس میں اپنی بات رکھی مگر اس پر غور خوض کرنے کے بجائے ایک جملے میں خارج کردیا گیا یہ مانگ بہت اہم تھی ابھی بھی 9500 جگہیں خالی ہیں اس میں سے 1800 لوگوں کومسقتل کر نے یا رعایت دینے کی بات رکھی گئی ہے ان میں سے کتنے لوگ پرمانیٹ ہوچکے ہونگے بمشکل ان کی رہی سہی تعداد 1000 یا 1200 ہوگی انہیں مستقل کردینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ اس سے BPSC اور BUSC کا بوجھ بھی ہلکا ہوجائے گا اور سال دو سال کا وقت بھی بچ جائے گا اور جو لوگ حکومت سے پرامید ہوکر کام کررہے ہیں حکومت کے تئیں ان کے دل میں احسان شناشی کا جذبہ بھی قائم ہوگا معزز وزیر اعلی نتیش کمار نے ہر محاذ پر بہار کے افراد کی تعمیرو ترقی کا کا م کیا ہے مجھے ان سے امید ھیکہ وہ اس قلیل تعداد کو تابناک مستقبل دینے میں ذرہ برابر دریغ نہیں کرینگے قانونی پیچ وخم کو درست کرنے کے لئے مجلس قانون ساز موجود ہے رہا آئندہ کے لئے معمول بن جانا تو یہ اور بہتر ہوگا کہ قابل ترین افراد بلا ہچکچاہت بہار کی یونیورسیٹیوں میں اپنی خدمات بطور گیسٹ فیکلٹی انجام دینے کے لئے تیار رہیں گے اور ان کے سامنے امید کا ایک چراغ بھی روشن رہے گا ۔یہ کہنا بہت آسان ہے کہ مہمانوں کو رخصت کردیا جائے گا مگر ان مہمانوں کا مستقبل کیا ہوگا وہ کن اعصابی تناؤ کا شکار ہونگے اس پر غور کر نابھی الواعی سلام کہنے والے کی ذمہ داری ہے
موبائل نمبر۔۔9350365055