ازقلم: زین العابدین ندوی
مقیم حال: کرلا، ممبئی
تقریباً دس ماہ قبل جب کورونا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور پورے ملک میں ہاہا کار مچی ہوئی تھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بس دنیا اپنی انتہاء کو پہونچ چکی ہے،ہر طرف بندشوں کا پہرہ تھا، آمد ورفت پر حکومتی عملہ کی سخت نگاہیں تھیں، ہر فرد بشر سہما ہوا ڈرا ہوا تھا، گھر کی چوکھٹ سے نکلنا مہم سر کرنے کے مرادف سمجھا جا رہا تھا، ایسے حالات میں ہم نے ممبئی سے اپنے وطن یوپی کا سفر کیا اور دس ماہ گزارنے کے بعد ایک بار پھر یاجوجی شہر ممبئی کا رخ کیا، اس شہر کی جتنی تعریف کی جاے وہ کم ہی ہوگی اس لئے کہ یہاں کے حالات کو قلم بند کرنے میں الفاظ اپنی کم مائیگی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔
منگل کی رات 12/بجے ہم اس شہر میں داخل ہوے، یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ یہ وہی ممبئی ہے جسے دس ماہ قبل ہم خیرباد کہہ گئے تھے، اتنے خطرناک حالات بلا ویکسینیشن کس طرح قابو کئے گئے یہ خود اپنے آپ میں محو حیرت میں ڈالنے والی بات ہے، جہاں کی سڑکوں پر چہار جانب سناٹوں کا راج تھا وہ آباد نظر آئیں، انسانوں کی آمد ورفت کا سلسلہ تھا کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا تھا،ابے تبے کی آوازیں آزو بازو کی صدائیں کانوں سے ٹکرائیں، شور شرابہ نے قریب بیٹھے شخص کی بات سننے سے عاجز کر دیا تھا، پھٹے نالے،ٹوٹی سڑکیں، تنگ گلیاں، پھیلتی بدبو یہ سب کچھ دکھائی دے رہا تھا، تہذیب انسانی کا کوئی اثر نہ تھا،
اس وقت راقم السطور شہر ممبئی میں واقع گھاس کمپاونڈ کاجوپاڑا میں ہے، جو سچ کہا جائے تو ایک وادی مجبوری ہے جہاں شوق سے بود وباش کسی سخت امتحان سے کم نہیں، لیکن پھر بھی انسانوں کا ایک سمندر وہاں رہتا ہے اور کسب معاش میں بالکل دیوانہ ہے، زندگی گزارنے کے لئے معاشی انتظام ایک ناگزیر امر ہے اور اگر صحیح نیت اور پاکیزہ طرز عمل سے یہ انتظام کیا جائے تو ایک بڑی عبادت ہے، اور ایسا کرنے والا الکاسب حبیب اللہ کا مصداق ہوگا، لیکن مال ودولت کے حصول نے انسان کو نہ صرف یہ کہ اس کے مالک سے بیگانہ کر دیا ہے بلکہ اس کو اس کی ذات سے بھی علاحدہ کردیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد صرف کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرہ پر گھومنے کے سوا کچھ نہیں، میرے ساتھ اس وقت علیم اللہ خان عرف پپو بھائی ہیں جنہوں نے ہماری خاطر اپنا وقت بھی دیا اور قیام وطعام کا انتظام بھی کیا اور قریب کے ان علاقوں کی سیر کرائی جہاں انسان اپنے پیٹ کی خاطر جانوروں سے زیادہ مشقتیں برداشت کرتا دکھائی دے رہا تھا، وہاں زندگیاں تو تھیں لیکن غیر مرتب، اسباب تو تھے لیکن سکون سے خالی، مال ودولت کی ریل پیل تو تھی لیکن اطمینان کا فقدان، یہ سب اس لئے ہے کہ ہم نے آرزوں کی تکمیل کو ضرورت کا نام دے دیا اور آرزو کا سلسلہ کبھی بند نہ ہوگا اس لئے سکون وطمانینت کی بازیابی تقریباً ناممکن ہے، اللہ نے رات سونے کے لئے اور دن معیشت کے لئے بنایا ہے جعلنا اللیل لباسا وجعلنا النہار معاشا، حصول دولت کی ہوڑ میں ہم نے ترتیب ہی بدل ڈالی، حضورﷺ نے فرمایا ہے: اللہم بارک لامتی فی بکورها ہم اس برکت کو رات میں تلاش کرتے ہیں، اس قدر بے ترتیبی کے ساتھ مال کا حصول تو ممکن ہے لیکن سکون قلب بھی میسر ہو یہ انتہائی مشکل کام ہے۔
اس دوران کچھ احباب سے ملاقات بھی ہوئی راشد بھائی ، ارشد بھائی، کے ساتھ کچھ مشورہ کیا، ہمارے گاؤں کے کلیم اللہ بھائی سے بھی ملنے کا موقع ملا، ساتھ میں چاے شاے پی، ضیاء الدین ندوی سے بس علیک سلیک ہی ہوسکا،اور پھر ناک دباے ہوے راستوں میں پھیلی گندھ سے فیضیاب ہوتے ہوئے کرلا کمانی اپنے مستقر پر پہونچا۔۔