راجستھان

بابری مسجد کا سانحہ: سبق، پیغام اور مستقبل کا لائحہ عمل: مولانا شمیم احمد نوری

سہلاؤ شریف/باڑمیر (پریس ریلیز)

بابری مسجد کی شہادت اسلامی تاریخ کا ایک اندوہناک باب ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ناقابل فراموش سانحہ بن چکا ہے۔ 6 دسمبر 1992 کو، ایودھیا میں ہندو انتہا پسندوں نے قانون و انصاف کو پامال کرتے ہوئے اس تاریخی مسجد کو شہید کر دیا۔ یہ سانحہ صرف ایک عبادت گاہ کا انہدام نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کی دینی، ثقافتی اور تاریخی شناخت پر ایک براہِ راست حملہ تھا۔
مذکورہ خیالات کا اظہار معروف عالم دین وقلم کار ادیب شہیر حضرت مولانا محمد شمیم احمد صاحب نوری مصباحی نے بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر پریس ریلیز کے ذریعہ کیا، آپ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ سانحہ ہمیں گہرے سبق دیتا ہے، جو نہ صرف ہماری اجتماعی بیداری بلکہ اتحاد اور جدوجہد کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

سانحہ کے اہم اسباق

مولانا نوری نے کہا کہ:

  1. اپنے ورثے کی حفاظت: بابری مسجد کا سانحہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اپنی دینی اور ثقافتی وراثت کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت چوکس رہنا ضروری ہے۔
  2. اتحاد و یکجہتی کی طاقت: مسلمانوں کا آپسی اتحاد اور یکجہتی ہی ان کی سب سے بڑی طاقت ہے، اور بغیر اس کے ہم اپنی شناخت کا تحفظ نہیں کر سکتے۔
  3. تعلیم اور شعور کی اہمیت: نئی نسل کو دین اور تاریخ کا شعور دینا ناگزیر ہے تاکہ وہ اپنے ورثے کی حفاظت کے لیے بیدار رہیں۔
  4. ظلم کے خلاف استقامت: انصاف کے قیام کے لیے صبر و حکمت کے ساتھ ظلم کے خلاف کھڑے ہونا ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ ہے۔

موجودہ حالات اور تجاویز:

بابری مسجد کے بعد مسلمانوں کے مقدسات پر حملوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہمیں مزید بیدار اور منظم ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے درج ذیل عملی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں:

  1. قانونی شعور اور جدوجہد: اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے حکمت اور تدبر کے ساتھ مقدمات کو مضبوطی سے لڑا جائے۔
  2. تعلیمی بیداری: نوجوانوں کو دینی و عصری تعلیم کے ساتھ اپنی تاریخ اور ورثے کی اہمیت سے روشناس کرایا جائے۔
  3. مذہبی ہم آہنگی: دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مثبت مکالمہ اور تعلقات قائم کریں تاکہ معاشرے میں ہم آہنگی اور بھائی چارہ فروغ پائے۔
  4. اتحاد کی مضبوطی: اپنے تشخصات کے ساتھ فرقہ وارانہ اختلافات کو ختم کرکے ایک متحد امت کی حیثیت سے کام کریں۔
  5. میڈیا کا مؤثر استعمال: جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنی مشکلات کو عالمی سطح پر اجاگر کریں اور اپنے پیغام کو دنیا تک پہنچائیں۔

آپ نے مزید یہ بھی کہا کہ بابری مسجد کا سانحہ مسلمانوں کے لیے آزمائش تھا، جس نے ہمیں یہ سکھایا کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق لے کر اپنے ایمان، اتحاد اور جدوجہد کو مضبوط بنانا ہوگا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انصاف کے حصول کے لیے ہمیں صبر اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔
مولانا نے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ:
"ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہماری ذمہ داری ہے، لیکن اس کے لیے ہمیں خود کو تعلیم، اتحاد اور شعور سے مضبوط بنانا ہوگا۔ اگر ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں، تو ان شاء اللہ، ہمارے مقدسات کی حفاظت اور ہمارے حقوق کا دفاع ممکن ہے۔”

آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ اپنی نسلوں کو دینی شعور اور اپنی تاریخ سے آگاہ کریں گے تاکہ وہ اپنے ورثے کے محافظ بن سکیں۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور ظالموں کے ساتھ نہ جھکنا، ورنہ تمہیں آگ چھو لے گی۔” (سورہ ہود: 113)

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے