فرد کی اصلاح پر معاشرہ کی اصلاح منحصر۔مولانا ڈاکٹر مفتی سید احمد غوری نقشبندی کا خطاب
حیدرآباد۔23؍نومبر(راست)اصلاحِ معاشرہ کی تحریک کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے نبوی مہنج کو اختیار کرنا ازحد ضروری ہے،معاشرتی برائیوں کے خاتمہ اور اصلاح کے لئے عملی اقدامات کرنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔اصلاحِ معاشرہ کی بنیاد دینِ اسلام کی تعلیمات پر ہونی چاہئیے، قرآن و سنت کو رہنما بنا کر ہی معاشرتی مسائل کے حل کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔اصلاحی تحریک کوکامیابی سے ہمکنارکرنے کے لئے قیل وقال اور زبانی جمع خرچ کے محور سے نکل کر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں سماجی بگاڑ کے سد باب کے لئے افراد کی تربیت اور ان کی ذہنی و روحانی اصلاح پر توجہ دینی ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار مولانا ڈاکٹر مفتی حافظ سید احمد غوری نقشبندی نائب شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ نے جامع مسجد قادری باغ عنبرپیٹ اور جامع مسجد حضرت بلال این۔ایس۔کنٹہ میں نماز جمعہ سے قبل کیا۔ سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے مولانا نے امتِ مسلمہ کے اندرونی اختلافات اور تفرقہ کو معاشرتی زوال کی ایک بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کے ساتھ اصلاحی تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی، نیز خاندانی نظام کی مضبوطی اور اخلاقی اقدار کے فروغ کو معاشرتی اصلاح کا بنیادی جزو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر خاندان کی سطح پر اصلاح ہو جائے تو پورے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، اسی طرح دعوتی کاموں میں نوجوانوں کو تحریک کا حصہ بنایا جائے،کیونکہ نوجوان ہی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ اصلاح کے اصول اور حکمت عملی کے حوالہ سے قرآنِ کریم کے سورہ ہود، آیت نمبر 88 میں حضرت شعیب ؑ کا یہ قول ذکر کیا گیا ہے،ترجمہ :میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں، جہاں تک میرے بس میں ہو۔یہ آیت انبیاء کرام کی اصلاحی جدوجہد کا نچوڑ پیش کرتی ہے اور ان تمام افراد کے لئے ایک رہنما اصول ہے جو دین کی خدمت اور دعوتِ حق کے میدان میں سرگرم ہیں۔ حضرت شعیب ؑکے اس فرمان میں رہنما اصول ملتے ہیں کہ اصلاح کے لئے انسان کو اپنی استطاعت کے مطابق ہر ممکن جدوجہد کرنی چاہئے، محدود وسائل اور مشکلات کے باوجود اپنی کوششوں میں کمی نہیں کرنی چاہئے، نیز اصلاح کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ برے افراد کو دشمن نہ بنایا جائے بلکہ برائی اور گناہ کو ختم کرنے کی جدوجہد کی جائے۔ تشدد کے بجائے حکمت، موعظت اور محبت سے اصلاحی عمل کو آگے بڑھایا جائے۔حضرت شعیب ؑ کے قول میں لفظ‘‘ مَاا سْتَطَعْتُ’’ (جہاں تک میری استطاعت ہو)اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اصلاح کے لئے حکمت عملی ، ممکنہ سعی اور خوابیدہ صلاحیتوں کو بروئے کارلایا جائے۔ اس کے علاوہ’ اصلاحی جدوجہد میں مال، وقت،افراد اور صلاحیتوں کو دین کی خدمت کے لیے پیش کرنا بھی اہم ہے۔ دوران خطاب مولانا نے کہا کہ اگر ہم اصلاحِ معاشرہ کے حوالہ سے کامیابی کی عظیم مثال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں نبی اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ کو سامنے رکھنا ہوگا۔ آپؐنے صرف 23 سال کے مختصر عرصہ میں نہ صرف جزیرہ نما عرب بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک مثالی معاشرہ قائم کیا،آپ ؐنے جاہلیت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی قوم کو ایمان، اتحاد، اور اخلاق کی روشنی سے منور کیا،آپ ؐکی اصلاحی تحریک محبت، صبر، اور حکمت سے بھرپور تھی، جس نے دلوں کو جیت لیا اور دشمنوں کو بھائی بھائی بنا دیا،آپ نے ہر سطح پر اصلاح کی، چاہے وہ عقائد ہوں، اخلاق ہوں یا سماجی نظام ہو یا تعلیمی میدان۔آج کے دور میں مختلف تحریکیں معاشرتی اصلاح کے لئے کوشاں ہیں، اور ان کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ دعوت دین کے لئے پیغمبرانہ اصولوں کو اپنائیں، اور اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ اصلاح ایک تدریجی عمل ہے جس میں صبر، حکمت، اور قربانی بنیادی عناصر ہیں، اور اسی کے ذریعہ ایک بہتر اور مثالی معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔ معاشرتی اصلاح کی ناکامی کے اسباب و علل پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ معاشرتی اصلاح کی کوششوں میں کامیابی اس وقت ممکن ہوتی ہے جب احساسِ ذمہ داری اور جوابدہی کا شعور معاشرہ کے ہر فرد میں پیدا ہو۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف تحریکیں اور اصلاحی منصوبے خاطر خواہ نتائج نہیں دے پاتے، اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھتے، جب کہ اسلام نے ہر فرد کو اس کی حیثیت کے مطابق ذمہ دار قرار دیا ہے، جیسا کہ نبی اکرمؐکا فرمان ہے،ترجمہ:‘‘تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ماتحتوں کے بارے میں جواب دہ ہوگا’’۔والد اپنی اولاد کا، بیوی اپنے شوہر کے گھر کی اوربادشاہ اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے۔ حضرت فاروق اعظم ؓکے دورِ خلافت میں احساسِ ذمہ داری کی روشن مثالیں نظر آتی ہیں، آپ راتوں کو بھیس بدل کر گلیوں میں گھومتے اور اپنی رعایا کے حالات معلوم کرتے تھے۔آپ نے فرمایا:‘‘اگر دریائے فرات کے کنارہ کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو عمر ؓسے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا’’۔یہ وہ جواب دہی کا احساس تھا جو آپ کے دور کو کامیاب اور معاشرے کو خوشحال بنانے کا سبب بنا۔ معاشرتی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر عوامی فلاح و بہبود کو مقدم رکھیں، اور اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقہ سے نبھائیں۔ اصلاحِ معاشرہ ایک ہمہ جہت کام ہے، جس کے لئے معاشرہ کے تمام طبقات کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور عملی طور پر کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس مقصد کی تکمیل میں علماء ، مشائخ، قائدین، والدین، اساتذہ اور عوام سب کو اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ لیکن افسوس کہ ذمہ داریوں کو ایک دوسریک کے کاندھوں پر ڈال کر گلو خلاصی کی روش نے اس کام کو منجمد کردیا۔ اہل علم وقلم کو چاہئے کہ وہ موجودہ دور کے مسائل پر کتب اور مضامین لکھیں، جو عام فہم اور مؤثر ہوں، نیزاسلاف کی قیمتی کتابوں کو دوبارہ منظر عام پر لائیں، انہیں مختلف زبانوں میں ترجمہ کریں۔مساجد اور مدارس میں مختصر مدتی کورسز کا انعقاد کریں، جن میں دینی اور اخلاقی تعلیمات پر زور دیا جائے۔ان کورسز میں تربیت کے ساتھ ساتھ عملی رہنمائی بھی فراہم کی جائے، خطباء کرام خطبۂ جمعہ کو ایک بہترین اصلاحی ذریعہ بناتے ہوئے حساس موضوعات پر سنجیدہ اور مدلل گفتگو کریں، خطیب’ جمعہ کی تقریر کو رسمی نہ سمجھے بلکہ مکمل تیاری کے ساتھ ایسا پیغام دے جو سننے والوں کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالے اور معاشرتی بگاڑ کو ختم کرنے میں مددگار ومعاون ہو۔ اسی طرح والدین اور اساتذہ کو مل کر بچوں کی تعلیم کے ساتھ کردار سازی اور اخلاقی تربیت پر توجہ دینی چاہئے۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کی ابتدائی تربیت گھر سے شروع کریں اور اسلامی اصولوں پر مبنی ماحول فراہم کریں۔اساتذہ کو چاہئے کہ نصاب کی تکمیل کے ساتھ طلبہ میں اخلاقی اقدار کو فروغ دیں۔اسی طرح عوام کو چاہئے کہ وہ اپنی سطح پر معاشرتی مسائل کے حل کے لئے اقدامات کریں۔اصلاح کی ذمہ داری کو صرف علماء یا حکومت پر ڈالنے کے بجائے خود عملی میدان میں اترکراپنے حصہ کا کام کریں۔قرآنِ کریم نے مسلمانوں کو ‘‘خیر امت’’قرار دیا ہے، جو لوگوں کے فائدہ کے لئے دنیا میں بھیجی گئی ہے۔اس شعور کو عام کرنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کو دنیا کی اصلاح میں قائدانہ کردار ادا کرنا ہے۔حضرت نبی اکرمؐنے معاشرتی اصلاح کے لئے مسجد نبوی کو مرکز بنایا، جو محض نماز کی ادائیگی کا مقام نہیں تھا بلکہ ایک ہمہ جہت ادارہ تھا۔ آپ ؐنے اسے عبادت، تعلیم، عدل، اور تربیت کے لئے ایک جامع پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا۔مسجد نبوی میں روزانہ پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی تھی، جو مسلمانوں کے لیے اجتماع اور اللہ کی عبادت کا اہم ذریعہ تھا۔مسجد میں مختلف علوم کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا تھا۔صحابہ کرامؓ سوالات کرتے اور نبی کریم ؐان کے جوابات عنایت فرماتے، جو ایک باقاعدہ تعلیمی عمل کی صورت اختیار کر گیا۔مسجد نبوی دارالافتاء کا کردار بھی ادا کرتی تھی، جہاں لوگوں کے مسائل کے شرعی حل بیان کئے جاتے۔اس مقام پر اسلامی قوانین اور احکام کے بارے میں رہنمائی فراہم کی جاتی تھی۔ اصحابِ صفہ کے لئے ایک خاص جگہ مختص تھی، جہاں وہ رہائش پذیر تھے۔ان کی باطنی تربیت اور تزکیۂ نفس کا انتظام اسی مقام پر ہوتا تھا۔یہ مسجد ’دارالقضا کا کردار بھی ادا کرتی تھی، جہاں عدل کے فیصلے ہوتے اور امت کے معاملات کو سلجھایا جاتا تھا۔آج کے دور میں اگرچہ عالی شان مساجد موجود ہیں؛ لیکن ان کی حقیقی افادیت کو بروئے کار نہیں لایا جا رہا ہے۔اگر مسجدوں کو محض عبادت تک محدود رکھا جائے تو ہم ان کے دیگر دعوتی منافع سے پہلو تہی اختیار کرنے والے سمجھے جائیں گے۔آج کے نوجوانوں میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو دین کو سیکھنے اور سمجھنے کا گہرا شوق وشغف رکھتا ہے۔ تاہم، جب وہ انٹرنیٹ یا گوگل پر دینی معلومات تلاش کرتے ہیں، انہیں بعض ایسے ذرائع کا سامنا ہوتا ہے جو بدعقیدگی اور گمراہی پھیلانے والے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر دین کے نام پر غلط فہمیاں اور شبہات پیدا کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دین سیکھنے کا یہ شوق نوجوانوں کو دین سے مزید دور لے جاتا ہے۔نتیجۃََنوجوان’ دین بیداری سے دین بیزاری کی طرف جارہے ہیں۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ دین سیکھنے کے صحیح اصولوں کو اپنایا جائے،جس طرح طبی علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری ہے اور انجینئر سے عمارت کا نقشہ بنوانا ہوتا ہے، اسی طرح دین کو سمجھنے کے لیے مستند علماء اور دین کے ماہرین سے رجوع کرنا ضروری ہے۔دینی علم کسی غیر ماہر، غیر مستند ذریعہ یا خود ساختہ ‘‘اسکالر’’سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ انٹرنیٹ پر صرف مستند اسلامی ویب سائٹس، صحیح العقیدہ علماء ، اور اداروں سے دین سیکھیں۔اپنے سوالات اور شبہات کے حل کے لئے مستند دینی مراکز یا معتمد علیہ علماء سے رابطہ کریں۔