حیدرآباد۔15؍نومبر(ای میل)حضرت رسول اللہؐکے دامن سے وابستگی انسانیت کی نجات کا ذریعہ اور فوز وفلاح کا موجب ہے۔سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر103 میں اتباعِ سنت کی اہمیت کو پراثر انداز میں بیان کیا گیا،ارشاد ربانی ہے: تم سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو!۔ ‘حبل اللہ’(اللہ کی رسی)کی مختلف تفسیریں کی گئیں، ایک تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد رسول اللہؐکی ذاتِ اقدس ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے ذریعہ اہلِ اسلام کو یہ حکم دیا کہ وہ رسول اللہؐ کے دامن سے وابستہ ہو جائیں اور آپؐکی سنتوں کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں۔ ان خیالات کا اظہار مولانا ڈاکٹر مفتی حافظ سید احمد غوری نقشبندی نائب شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ وڈائرکٹر مرکز انوار السنہ برائے اسلامی تحقیقاتنے نماز جمعہ سے قبل جامع مسجد قادری باغ عنبرپیٹ اور جامع مسجد حضرت بلال این۔ایس۔ کنٹہ میں کیا۔ مولانا نے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ انسانیت گمراہی وضلالت کے گہرے گڑھے میں پڑی ہوئی تھی،جہالت وناخواندگی کے قعر مذلت میں تھی، اسے پستیوں سے نکال کر بلندیوں کی طرف لے جانے، جہالت کی ہلاکت خیز وادی سے نکال کے علم ومعرفت سے مزین کرکے اوج کمال عطا کرنے اور اخروی عذاب سے نجات دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ سے ایک‘‘مضبوط رسی’’بھیجی، جو رسول اللہؐکی ذاتِ مبارک ہے۔یہ ‘‘رسی’’ایسی ہے جس کا سرا اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت میں ہے اور دوسراحصہ مخلوق سے جڑا ہوا ہے، جو اس رسی کو تھام لیتا ہے وہ بالواسطہ اللہ تعالیٰ سے جڑ جاتا ہے اور گمراہی، ذلت اور پستی سے نکل کر بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے، حق شناسی اور حق رسائی کا یہی واحد ذریعہ ہے، اس سے انحراف کر کے خدائے تعالی کا قرب حاصل نہیں کیا جاسکتا۔خطاب میں اس بات پر زور دیا گیا کہ آج کے دور میں جہاں مادی ترقی کے باوجود انسانیت ذہنی اور روحانی بحران کا شکار ہے، اتباعِ سنت ہی وہ واحد راستہ ہے جو دلوں کی اصلاح، روح کی تطہیر،قلب کی تنویر اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے۔اس موقع پر مولانا نے سلف صالحین اور اولیاء اللہ کی زندگیوں سے اتباعِ رسولؐ کی عملی مثالیں پیش کرتے ہوئے امام احمد بن حنبلؒ کے واقعے کو بیان کیا، جو اتباعِ سنت اور دین کے لیے ان کے عزم واستقامت کی ایک روشن مثال ہے۔امام احمد بن حنبلؒ کے دور میں مسئلہ خلقِ قرآن پر ان کا اختلاف حاکمِ وقت کے ساتھ ہوا، جس کے نتیجے میں حکومت نے ان کے خلاف شدید کارروائیوں کا آغاز کیا، آپ کے چاہنے والوں نے مشورہ دیا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے کہیں نظربند ہوجائیں، چنانچہ امام احمدؒ نے تین دن کے لیے خود کو پوشیدہ رکھا،تاہم چوتھے دن وہ اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل آئے، احباب نے ان سے کہا کہ ابھی آپ کے لیے خطرہ کم نہیں ہوا، ظالم آپ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، ہر جگہ آپ کی تلاش جاری ہے، اس پر امام احمدؒ نے تاریخی جواب دیا:‘‘مجھے رسول اللہ ؐکی اتباع منظور ہے؛ ہجرت کے موقع پر آپؐ غارِ ثور میں صرف تین دن رہے، میں اس سے زیادہ چھپ کر سنت کی مخالفت نہیں کر سکتا’’۔ جان رہے یا نہ رہے؛ لیکن رسول اللہ ؐکی اتباع اور آپ کا دامن ہرگز نہیں چھوٹے گا۔یہ ہمارے لئے درس عبرت ہے کہ ہمارے اسلاف کی زندگیوں میں سنتِ رسولؐکو کتنا بلند مقام حاصل تھا، وہ جان، مال اور دنیاوی فوائد کو نظرانداز کرکے صرف اتباعِ رسولؐکو فوقیت دیتے تھے۔یہ واقعات اور تذکرے آج ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ اگر ہم اپنے معاملات میں رسول اللہ ؐکی سنت کوپیش نظر رکھیں تو دنیاوی مشکلات اور آزمائشیں بھی ایمان کو متزلزل نہیں کر سکتیں، اتباعِ سنت نہ صرف دنیاوی کامیابی بلکہ آخرت میں فلاح کا بھی ذریعہ ہے۔مولانا نے مزید کہا کہ اتباعِ سنت، جنت میں رسول اللہؐکی رفاقت کا ذریعہ ہے،حضرت نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا:‘‘جس نے میری سنت کو زندہ کیا؛ اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت رکھی؛ وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا’’۔دنیا کی چند روزہ تکالیف اور مخالفتوں کو برداشت کر لیا جائے تو اتباعِ سنت کے ذریعے نہ صرف دل کی تطہیر ممکن ہے بلکہ جنت میں رسول اللہؐ کے ساتھ رہنے کی سعادت بھی نصیب ہوگی۔حضرت رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا:‘‘جو میری سنت کی حفاظت کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے چار انعامات سے نوازے گا:(1) نیک اور صالح لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا کی جائے گی(2)فاسقوں اور بدکاروں کے دل میں اس کی ہیبت ڈال دی جائے گی(3)اس کے رزق میں وسعت ہوگی(4)دینی معاملات میں لوگ اس پر اعتماد کریں گے۔”نبی کریم ؐسے محبت کی علامت یہ ہے کہ انسان اپنے محبوب کی ہر ادا کو اپنائے اور اس پر عمل کرے۔ جو شخص حضورؐکی سنت کو اپناتا ہے وہ حقیقی معنوں میں آپؐ سے محبت کرتا ہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ نبی کریمؐکی سنت اور حکم کی پیروی کے لیے جذبات و خواہشات کی قربانی دیتے اس کی ایک اعلیٰ مثال حضرت مرثدؓ بن ابو مرثد کی زندگی میں ملتی ہے،در منثور اور روح البیان میں ہے کہ حضرت مرثدؓ ایک مہاجر صحابی تھے، مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کے بعد کسی کام کے سلسلہ میں وہ مکہ مکرمہ گئے، جہاں ان کی ملاقات ایک خاتون‘‘ عناق’’ سے ہوئی۔ یہ وہی خاتون تھیں جن سے قبولِ اسلام سے پہلے حضرت مرثدؓ کے کچھ تعلقات تھے، عناق نہایت حسین، مالدار، اور معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھی،اس نے حضرت مرثدؓ کو سابقہ تعلقات یاد دلاتے ہوئے اپنی محبت کی دہائی دیکر اپنے ساتھ رہنے کی دعوت دی اور اپنی جانب مائل کرناچاہا،حضرت مرثدؓ نے جواب دیا:‘‘ہمارے اور تمہارے درمیان اسلام حائل ہو چکا ہے۔ میں تم سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھ سکتا’’۔آپؓ نے اس کی جانب نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھااور عفت و عصمت کی اعلیٰ مثال قائم کی۔جب عناق نے نکاح کی پیشکش کی تو حضرت مرثدؓ نے فرمایا کہ وہ اس معاملے میں رسول اللہؐسے مشورہ کریں گے، مدینہ طیبہ واپسی پر جب انہوں نے نبی کریمؐسے اس کا ذکر کیا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیات نازل فرمائی:‘‘اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں، اور ایمان والی باندی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ تمہیں کتنی ہی پسند کیوں نہ ہو’’۔یہ سنتے ہی حضرت مرثدؓ نے اپنے جذبات کو دبا دیا اورفرمان خدا اور ارشاد رسول ؐکے کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ آپؓ کے لیے حضور ؐکی محبت دنیا کی ہر محبت پر غالب تھی، اور آپ نے اپنے ایمان اور اطاعت و اتباعِ رسولؐکی حفاظت کو دنیاوی تعلقات پر فوقیت دی۔یہ واقعہ آج کی نوجوان نسل کے لیے ایک سبق ہے جوآج عشق اور محبت کے نام پر ارتداد کا شکار ہوتی جارہی ہے، اسلامی احکام کو پس پشت ڈال کر خواہشات کے غلام بنے بیٹھے ہیں،ایسے وقت لازم ہے کہ دلوں میں خوف خدا پیدا کیا جائے اور اتباعِ رسولؐلازم کرلیں، یہ جذبہ نہ صرف ایمان کو مضبوط کرتا ہے بلکہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا ضامن ہے۔فساد اور بگاڑ کے زمانے میں سنت کی حفاظت اور اس کے احیاء پر عظیم بشارت دی گئی،چنانچہ امام بیہقی کی کتاب الزہد میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے:حضرت نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا:‘‘جس نے بگاڑ اور فساد کے زمانے میں میری سنت کو مضبوطی سے تھام لیا، اسے سو شہیدوں کا ثواب دیا جائے گا’’۔اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ محدثینِ کرامؒ نے اس عظیم اجر کی حکمت پر تفصیلی گفتگو کی ہے کہ میدانِ جنگ میں شہید ہونے والے مجاہد کو اسلام کی حفاظت کے لئے جان دینے پر ایک شہید کا ثواب ملتا ہے، لیکن فساد کے زمانے میں سنت کی حفاظت کرنے والے کو سو شہیدوں کا ثواب کیوں دیا جاتا ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ میدانِ جنگ میں مجاہد پر جو حملے کئے جاتے ہیں وہ جسمانی ہوتے ہیں اور ایک بار جان دینے پر وہ شہادت کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے، اسے دوبارہ نہیں مارا جاتا، لیکن جو شخص فساد کے دور میں سنت کی حفاظت کرتا ہے اور میدان عمل میں اتر آتا ہے اس پر نفسیاتی حملے کئے جاتے ہیں اور اسے طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے،اسے لوگوں کی تنقید، طنز، اور الزام تراشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ حملے جسم پر نہیں بلکہ دل پر لگتے ہیں، جسمانی زخموں کا علاج ممکن ہوتا ہے، لیکن دل کے زخموں کا مرہم پانا مشکل ہے۔ ہر طنز، ہر ملامت، اور ہر طعنہ اس شخص کے ایمان کو آزمانے کا باعث بنتا ہے، لیکن جو شخص ان سب تکالیف کے باوجود دین پر ثابت قدم رہتا ہے، وہ نبی کریمؐکی اس بشارت کا مستحق ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے سو شہیدوں کا ثواب عطا فرمائے گا۔آج کے بگاڑ اور بے دینی کے ماحول میں سنتِ رسول ؐکو مضبوطی سے تھامنا نہایت ضروری ہے۔ ہمیں اپنی زندگیوں کو رسول اللہؐکی سنت کے مطابق ڈھالنا چاہیے، چاہے لوگ مخالفت کریں یا ہمیں ملامت کا نشانہ بنائیں۔ آج کے معاشرہ میں اگر کوئی نوجوان داڑھی رکھتا ہے اور اپنے دوستوں کے حلقے میں جاتا ہے تو اسے اکثر طنز و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض لوگ اسے ‘‘مولوی’’یا ‘‘دیندار’’کہہ کر طنز کرتے ہیں، لیکن جو نوجوان ان تمام طعنوں کو نظرانداز کرتے ہوئے سنتِ رسولؐکو اپناتا ہے، اسے نبی کریمؐکی حدیث کے مطابق سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ آج جولوگ سودی لین دین میں ملوث ہیں اور ظاہری طور پر مالدار نظر آتے ہیں، بڑی بڑی عمارتیں اور قیمتی گاڑیاں ان کے پاس ہیں۔ ایسے ماحول میں جو شخص شریعت کے اصولوں پر کاربند رہتا ہے اور حلال و حرام میں تمیز کرتا ہے، اور اللہ اور اس کے رسولؐکی ناراضگی کو کسی صورت قبول نہیں کرتا، وہ قیامت کے دن ایسے درجات پر ہوگا جو سب کے لیے قابل رشک ہوں گے۔اسلام حلال ذرائع سے دنیا کمانے اور جائز تجارت کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ لیکن حرام ذرائع، خصوصاً سود اور دھوکہ سے روکتا ہے جو انسان کو تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ حلال اور پاکیزہ مال ہی برکت اور سکون کا ذریعہ بنتا ہے۔معاشرتی دباؤ اور دنیاوی لالچ کی پرواہ کئے بغیر دین کے اصولوں پر عمل کیا جائے، دنیا کی آزمائشیں عارضی ہیں، لیکن اللہ تعالی اور اس کے رسولؐ کی رضا وخوشنودی میں دائمی کامیابی ہے۔
![](https://news.hamariaawaz.com/wp-content/uploads/2024/11/مولانا-ڈاکٹر-سید-احمد-غوری-نقشبندی-کا-خطاب--1200x642.jpg)