پٹنہ: رئیس التارکین مجاہد ملت حضرت علامہ محمد حبیب الرحمٰن رضوی علیہ الرحمہ ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں ایک عرصہ دراز تک دینی ملی سماجی اور فلاحی کام انجام دیں۔ اسلامی تحریکات سے وابسگتی اور گمراہ فرقوں کی سر کوبی مجاہد ملت کا محبوب مشغلہ تھا۔ ملک بھر میں آپ نے دینی ادارے اور انجمنیں قائم کرنے کا ایک عظیم سلسلہ شروع کیا۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے مجاہد ملت کو دولت علم و عمل سے نوازا تھا وہی دنیوی مال و متاع سے بھی مالا مال کیا تھا۔ آپ کو دیکھ کر ان متقدمین اولیاء کی یاد تازہ ہوتی ہے جنہوں نے رئیسانہ زندگی ترک کر کے فقیرانہ زندگی کو پسند فرمایا اور نفس کو اپنے اوپر غالب نہیں ہونے دیا۔ مجاہد ملت نے کئی بدعقیدوں سے مناظرہ بھی کیا اور اس میں فتح و کامرانی ہوئی۔ حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ نے ریاست و امارت، علم و فضل دونوں طرح کی نعمتوں سے حصہ پایا تھا۔ مگر علم و فضل اور عشق و عرفان کو دنیاوی امارت و ریاست پر ہمیشہ غالب رکھا۔ آپ کی زندگی کا سر سری مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحائف و نذر کی صورت میں جو کچھ مجاہد ملت کے پاس آیا اُن سب کو اللہ کے راستے میں بے دریغ خرچ فرما دیا کرتے تھے بلکہ مزید گھر سے بھی خرچ فرماتے۔ اسی وجہ سے مجاہد ملت کو زمانے کا رئیس التارکین اور رئیس اعظم اریسہ کہا جانے لگا۔ جو صرف ایک تعریفی خطاب نہیں بلکہ آپ اس کے صحیح مصداق ہیں۔ ایک مرتبہ آپ نے پٹنہ میں ہونے والی کانفرنس میں اپنی اہلیہ محترمہ کے تمام زیورات کو لاکر پیش کردیا۔ منتظمین کانفرنس نے جب ان زیورات کو قبول نہ کیا تو ارشاد فرمایا کہ "اب تو یہ گھر سے نکل چکا ہے واپس نہیں جا سکتا ہے”۔ حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ نہایت ذہین، دقیقہ رس، دور اندیش اور معاملہ فہم تھے۔ درس نظامی کے جملہ فنون میں ماہر کامل اور فائق الاقران تھے۔ علم و فضل کا چرچہ پورے ملک ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ تشنگان علوم کو تشفی بخش درس دیتےتھے۔
مذکورہ خیالات کا اظہار استاذ مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ مفتی غلام رسول اسماعیلی خطیب وامام قدیمی جامع مسجد محمدپور شاہ گنج نے عرس حضور مجاہد ملت کے موقع پر کیا۔
مزید انہوں نے کہا کہ حضرت علامہ محمد حبیب الرحمٰن ہاشمی عباسی رضوی رحمۃ اللہ علیہ بتاریخ ۸ محرم الحرام ۱۳۲۲ھ بروز شنبہ بوقتِ صبحِ صادق، قصبہ دھام نگر، صوبۂ اڑیسہ (موجودہ نام اوڈیشا) انڈیا میں پیدا ہوئے۔اورتقریبانصف صدی خدمات دین انجام دیکر ۶ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۱ھ/ بمطابق مارچ ۱۹۸۱ء بروز جمعہ، شام، اسمٰعیل ہوٹل، بمبئی میں آپ کا وصال پر ملال ہوا۔ وہاں سے نعش مبارک بذریعہ طیارہ کلکتہ لائی گئی۔ پھر وہاں سے آپ کے وطن مالوف کٹک اُریسہ لیجائی گئی۔ اور تیسرے دن اتوار کی شام تقریباً ۵ بجے دھام نگر خانقاہ میں سپرد خاک کیا گیا۔
علم و عمل ، اخلاص و تقویٰ ، عشق رسول ﷺ ، عبادت و ریاضت ، اتباع سنت ، استقامت علیٰ الشریعت ، زہد و قناعت ، صبر و رضا ، استغناء و توکل ، ہمت و جرات ، احقاق حق و ابطال باطل کا جذبۂ بیکراں ، حق گوئی و بیباکی ، اولوا العزمی ، بلند ہمتی ، جہاد بالنفس ، جہاد بالمال ، جہاد باللسان ، دعوت و تبلیغ اور اصلاح معاشرہ کے لیے ہمہ دم سرگرداں و کوشاں ، عزمِ محکم ، عملِ پیہم ، جہدِ مسلسل ، سخاوت و فیاضی ، ایثار و قربانی ، تواضع و انکساری ، بے نفسی و سادہ لوحی ، سادگی و بے ریائی ، خدمتِ خلق ، احترامِ اکابر ، اصاغر نوازی ، طاعات و عبادات میں کامل انہماک اور صغائر و کبائر سے حد درجہ نفور و اجتناب سرکار مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی کتابِ سیرت و کردار کے یہ نہایت درخشاں ابواب ہیں۔
حضور مجاہد ملت جس زمانے میں پیدا ہوئے وہ زمانہ مذہب و مسلک کے لیے بڑا پر خطر و پر آشوب اور بڑا نازک تھامسلمان دینی، ملی، سیاسی اور صنعتی اعتبار سے مایوسیوں کا شکار تھا۔ اسلامی اقتدار کو کھلے عام نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ تقدیس الوہیت و رسالت کو شدید خطرہ لاحق تھا۔ درس گاہوں اور خانقاہوں کا وقار داؤ پر لگا ہوا تھا۔ مسلمانوں سے ان کا تصلب و تشخص چھینا جا رہا تھا-ایسے پر خطر ماحول میں آپ نے قوم مسلم کو آبرو مندانہ زندگی گذارنے کا حوصلہ بخشا اور باطل کی ہر شازش کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بے نقاب فرمایاحضور اعلی حضرت قدس سرہ العزیز نے باطل قوتوں سے مقابلے کے لیے جو ہتھیار تیار کۓ تھے حضور مجاہد ملت اسی ہتھیار سے لیس ہو کر میدان عمل اترے اور باطل کے ناپاک عزائم کو زمیں بوس کر دیا۔ آپ نے قوم مسلم کو بامقصد زندگی گذارنے کے طریقے بتائے اور حکومت وقت سے اپنے جائز مطالبات منوانے اور اجتماعی طور پر منظم رہنے کے لیے پر زور تحریکیں چلائیں۔ مسلم مسائل کو اٹھانے کی بنیاد پر آپ ہمیشہ حکومت وقت کی نگاہوں میں کھٹکتے رہے۔ آپ نے بہت ہی عمدہ اور قائدانہ سیاست بھی کی جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
آپ تادمِ حیات جہاد بالنفس اور جہاد باللسان کا مقدس فریضہ بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔
اپ کی زندگی کا بیشتر حصہ یا تو جیل میں کٹا یا ریل میں حضور مجاہد ملت نے اسلام و سنیت کو جو عروج عطا کیا ہے صبح قیامت تک زمانہ فراموش نہیں کرسکتا۔