بارہ بنکی(ابوشحمہ انصاری)میں جب کبھی بھی عارف محمود آبادی سے ملاقات کے لئےحاضر ہوتا تو مرحومہ کا معمول تھا کہ وہ کسی کو بھیج کر مہمان خانے میں بیٹھنے کو کہتیں اور جب تک خاطر تواضع نہیں ہو جاتی وہ جانے نہ دیتی تھیں۔ اپنی علالت کے باوجود بھی وہ اپنے شوہر اور اہلِ خانہ کا خیال رکھتی تھیں۔ یہ بات مسرور ایجوکیشنل سوسائٹی کے بانی اور واجد علی شاہ اختر اکادمی کے نائب صدر ڈاکٹر منصور حسن خان نے زکیہ ولا مفتی گنج میں منعقد تعزیتی میٹنگ میں مرحومہ کی رحلت پر کہی۔ اکادمی کے جنرل سیکریٹری اور مسرور ایجوکیشنل سوسائٹی کے سرپرست ڈاکٹر ثروت تقی نے مرحومہ کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک نیک سیرت، نیک طینت اور نیک دل خاتون تھیں اور انھوں نے اپنے بیٹوں کی تعلیم و تربیت بہت بہتر ڈھنگ سے کی جس کے سبب ان کے بچے تو بچے ان کے گھر کی بہوئیں بھی اپنی ساس کی طویل بیماری میں بڑی خدمت کرتی رہیں۔ ایسا شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
معروف شاعر اور "ادب سرائے” کے بانی ڈاکٹر منتظر قائمی نے کہا کہ واجد علی شاہ اختر اکادمی کی جانب سے ہونے والے تمام پروگرام میں ان کے بیٹے اور گھر کے تمام افراد بڑے ہی ذوق و شوق سے شریک رہتے تھے اور آنے والے تمام شرکاء کا بہت خیال رکھتے تھے یہ ان کی والدہ کی تربیت اور انکساری کا ہی نتیجہ تھا ورنہ آجکل کی اولاد والدین کو بوجھ سمجھتی ہیں۔
اریبہ ایجوکیشنل سوسائٹی کھدرا کی ڈائریکٹر اور اترپردیش اردو اکادمی کی سابق ممبر ڈاکٹر رضوانہ نے کہا کہ واجد علی شاہ اختر اکادمی کے پروگرام میں ہمیشہ بڑی ہی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے اور پروگرام تو ہمیشہ شاندار ہوتے ہیں لیکن ان کے یہاں شرکاء کی خاطر تواضع بھی خوب کی روایت بھی بڑی شاندار ہے کیونکہ اس مرحومہ کی بڑی دلچسپی رہتی تھی۔ ماہر امراضِ اطفال ڈاکٹر سردار مہدی نے کہا کہ یہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ اکادمی تمام کارگزاری میں شریک رہنے والی خاتون سفر آخرت پر روانہ ہوگئں جو نیک سیرت، پابند صوم و صلوۃ، دینی اور مذہبی امور میں بہت دلچسپی رکھتی تھیں۔ میٹنگ میں ایڈوکیٹ انصار احمد خان، کاظمی فاطمہ، اریبہ، ادیبہ، نشرہ، احسان الحق، تنویر احمد اور سرفراز احمد وغیرہ شریک تھے۔ آخر میں مرحومہ کے ایصال ثواب کے لئے دعائے مغفرت اور سورۂ فاتحہ کا اہتمام کیا گیا۔