- مذہب کی بنیاد پر کسی ضرورت مند کو محروم کرنا غیر اخلاقی حرکت۔ مولانا ڈاکٹر سید احمدغوری نقشبندی کا خطاب
حیدرآباد۔2؍نومبر (راست) اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو دولت سے نوازا ہے اور بعض کو ضرورت مند بنایا ہے۔ اس دولت کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھتے ہوئے ضرورتمندوں کی مدد کرنا ان لوگوں کے ذمہ ہے جن کی پاس مال کی فراوانی ہے۔ اسلام میں خدمت خلق کی تعلیم ہر طرح کے فرق اور امتیاز سے بالاتر ہو کر دی گئی ہے۔ اسلام نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ضرورت مند کی مدد میں مذہبی فرق نہیں دیکھا جانا چاہیے، بلکہ ہر انسان کی بلا تفریق مذہب اعانت کی جائے۔اس حوالے سے رسول اللہ ؐ کی ایک حدیث میں خدمت خلق کی اہمیت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندے سے فرمائے گا:اے ابن آدم! جب میں بیمار ہوا تو تُو نے میری عیادت کیوں نہ کی؟ جب میں بھوکا تھا تو تُو نے مجھے کھانا کیوں نہ کھلایا؟ بندہ جواب میں عرض کرے گا کہ اے اللہ! تُو تو رب العالمین ہے، تجھے کوئی بیماری یا بھوک کیسے لاحق ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا یا بھوکا تھا، اگر تُو اس کی عیادت کرتا یا کھانا کھلاتا تو تُو مجھے اس کے پاس پاتا۔یہ حدیث مبارک اس بات کو واضح کرتی ہے کہ خدمتِ خلق اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے اور اسلام کے محاسن میں سے ہے کہ ضرورت مندوں کی مدد کرنے کی تلقین کی گئی ہے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ان خیالات کا اظہار مولانا ڈاکٹر مفتی حافظ سید احمد غوری نقشبندی نائب شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ وڈائکٹر MASIR نے جامع مسجد قادری باغ عنبرپیٹ اور جامع مسجد حضرت بلال این۔ایس۔ کنٹہ میں جمعہ کی نماز سے قبل کیا۔سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے مولانا نے کہا کہ رسول اللہ ؐکی سیرت طیبہ میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ ایک یہودی لڑکا، جو اکثر حضور اکرمؐ کی خدمت میں آیا کرتا تھا، بستر مرگ پر تھا۔ نبی کریمؐ نے نہ صرف اس کی عیادت کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے بلکہ اس کو اسلام کی دعوت بھی دی۔ وہ لڑکا پس و پیش میں تھا، اور اس لمحے اپنے والد کی طرف دیکھنے لگا۔ حضورؐ کے اخلاق عالیہ اور شفقت سے متاثر ہو کر اس کے والد نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ‘‘ابوالقاسم محمدؐ کی اطاعت کرو’’۔لڑکے نے کلمہ پڑھا اور اسی حالت میں اس کی روح پرواز کر گئی۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس لڑکے کو جہنم سے بچا لیا۔اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خدمت خلق اور ہمدردی میں کسی مذہبی فرق کو روا نہ رکھا جائے، بلکہ بلا تفریق سب انسانوں کے ساتھ بہتر سلوک اور اخلاق سے پیش آنا چاہیے۔ سیرت طیبہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ؐغیر مسلموں کی عیادت کے لیے بھی تشریف لے جایا کرتے تھے، جس سے انسانیت کی بنیاد پر ہمدردی اور رواداری کا درس ملتا ہے۔ اسلام نے ہمیشہ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کا پیغام دیا ہے، چاہے وہ مخالفین ہی کیوں نہ ہوں۔ مکہ مکرمہ میں کفار و مشرکین نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے، لیکن ان ہی میں کچھ ایسے افراد بھی تھے جو دین کے معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی میں شامل نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ ایسے لوگ نہ ظلم کا حصہ بنے، نہ اس کی مدد کی، اور نہ ہی کسی ظلم میں معاونت کی۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر 8 میں مسلمانوں کو یہی درس دیا ہے کہ وہ لوگ جو دین کے معاملے میں تم سے برسرپیکار نہیں ہوئے اور نہ ہی تمہیں ہجرت پر مجبور کیا، ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ۔ قرآن کریم کا یہ حکم اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا، ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے، چاہے ان کا مذہب مختلف ہی کیوں نہ ہو۔ یہ اسلامی تعلیمات کے مغایر بات ہے کہ چند افراد کے مخالفانہ رویے، معاندانہ کردار اور متعصبانہ روش کے سبب دیگر افراد موردِ الزام نہ ٹھہرا جائے۔ سورہ ممتحنہ کی اس آیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جو لوگ کسی ظلم و زیادتی میں شریک نہ ہوں اور باطل کے معاون نہ بنیں، ان کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا جائے، اگرچہ وہ ہمارے مذہب کے نہ ہوں۔ یہ قرآن کریم کی عظیم تعلیمات اور اسلام کی رحمت پر مبنی اصول ہیں۔ اسلام کی عظیم تعلیمات میں انسانی ہمدردی اور حسن اخلاق کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ سیرتِ طیبہ میں اس کی ایک بہترین مثال حضرت ثمامہ بن اثالؓکا واقعہ ہے، جو یمامہ کے سردار تھے۔ جب حضرت ثمامہؓ مشرف باسلام ہوئے تو انہوں نے اپنے وطن واپس جا کر مکہ مکرمہ کے لوگوں پر اناج اور غلے کی رسد (سپلائی) پر پابندی لگا دی کیونکہ اہل مکہ نے اسلام اور مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے تھے۔ جب مکہ میں غذائی بحران پیدا ہو گیا اور حالات بگڑنے لگے تو اہل مکہ نے رسول اللہؐ کو خط لکھ کر درخواست کی کہ حضرت ثمامہ کو اناج اور غلہ بھیجنے کا حکم دیں۔ اس پر رسول اللہؐ نے حضرت ثمامہؓ کو حکم دیا کہ وہ مکہ والوں کے لئے اناج اور غلہ کی رسد بحال کر دیں۔ نبی کریمؐ کا یہ حکم انسانی ہمدردی، اخلاق اور رواداری کا بہترین نمونہ ہے۔ اس عمل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے ہمیشہ انسانیت کی ضروریات کو مقدم رکھا ہے اور سابقہ ظلم و زیادتی کے باوجود کسی قوم کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھنے کو پسند نہ کیا۔ حالانکہ مکہ والوں نے شعب ابی طالب میں مسلمانوں کو تین سال تک محصور کر کے اناج اور غلہ بند کر رکھا تھا، مگر رسول اللہؐ نے کسی بھی طرح کی انتقامی کارروائی کے بجائے صرف انسانی اقدار کی بنیاد پر حسنِ تعامل کا حکم دیا۔ آج کل سوشل میڈیا پر ایسے مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ بعض افراد غریبوں کو قطار میں ٹھہرا کر انہیں کھانا تو فراہم کر رہے ہیں مگر اس شرط پر کہ وہ مخصوص مذہبی نعرے لگائیں یا ان کے مذہب کی جانچ کے بعد انہیں کھانے کیلئے کچھ دیا جائے، اگر کوئی ان کی توقعات پر پورا نہیں اترتا یا مطلوبہ نعرہ نہیں لگاتا تو اسے کھانے سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ مذہبی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ اسلام کا درس ہے کہ کسی کی مدد کرتے وقت اس کی ضرورت کو دیکھیں، نہ کہ اس کے مذہب کو۔ رسول اللہؐ کی سیرت میں ہمیں اس کی بہترین مثال ملتی ہے۔ فجر کی نماز کے بعد جب آپؐمسجد سے باہر تشریف لاتے تو غیر مسلم افراد آپؐ کے پاس برتن لے کر آتے اور شدید سردی میں برف جیسے ٹھنڈے پانی میں آپؐ اپنا ہاتھ ڈال دیتے۔ وہ غیر مسلم اس پانی کو اپنے بیماروں کو پلاتے اور اس سے شفا حاصل کرتے، رسول اللہؐ نے بغیر کسی تفریق کے انسانیت کی مدد کی، چاہے مدد کے طلبگار کا مذہب کچھ بھی ہو۔ گو کہ مسلمانوں کے ساتھ حسنِ سلوک گونہ فضیلت کا حامل ہے۔ آج ہمیں بھی چاہیے کہ ضرورت مندوں، یتیموں، بیواؤں اور محتاجوں کی مدد کرتے وقت مذہبی تفریق نہ کریں۔ ہاں، زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ کے کچھ مخصوص شرعی احکام ہیں جن کا مصرف متعین ہے، مگر عمومی امداد اور انسانیت کی خدمت میں ہمیں ہر ضرورت مند کا ساتھ دینا چاہیے۔ یہ نہ صرف اسلام کا تقاضا ہے بلکہ بہترین انسانی برتاؤ کا مظہر اور اچھے شہری ہونے کی نشانی ہے۔