اہل سنت کی تعلیمات کو عام کرنا وقت کی ضرورت۔ مولانا ممشاد پاشا ہ کا خطاب
حیدرآباد 18اکتوبر (راست) سیدنا غوث اعظم ؓ آسمان تصوف کے وہ ماہ تاباں ہیں جس کی روشنی تاابد تاریک دلوں کو نور معرفت سے منور و درخشاں کرتی رہے گی۔سیدنا غوث اعظم ؓ کی ذات گرامی فیوض و برکات کا وہ منبع و مخزن ہے کہ جمیع سلسلہ ہائے تصوف آپ کے فیضان سے جھولیاں بھررہے ہیں۔ سیدنا غوث اعظم ؓ کی نظر ولایت نے نہ جانے کتنے بھٹکے ہوئے افراد کا ہاتھ تھام کر انہیں بارگاہ رب العالمین میں پہنچایا،اور نا جانے کتنی مخلوق کو گمراہی اور کفر کے دلدل سے نکال کر جنت کے حسین راستوں پر گامزن کیا۔ سیدنا غوث اعظم ؓ کوئی معروف معنی میں محض ایک پیر نہیں تھے بلکہ اسلام کے ایک بے مثال داعی تھے،جن کی ساری حیات رجوع الی اللہ والی الرسول میں گذری۔جوکچھ بھی نذ و نیاز کے نام پر حاصل ہوتا اس کو غربا و فقراء میں تقسیم کردیتے تھے یہاں تک کہ اپنی تجارت کا منافع بھی مخلوق خدا پر لٹا دیتے تھے۔نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے قبل از جمعہ جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم، مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ازل سے ہر دور میں ایسے لوگوں کو منتخب کرتارہا ہے جو معاشرے میں انہی نیک اعمال کے عَلم بردار ہوتے ہیں – حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے اولیاء کاملین نے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو باقی رکھا ہے۔-سیدنا غوث اعظم ؓ انہی نفوس قدسیہ میں سے ہیں جن کی حیات حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت و تبلیغ میں گذری -آج ہم من حیث القوم مجموعی طور پر اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں – چہ مسلم چہ کافر اخلاق کی قحط سالی ہر سو پھیلی ہوئی ہے-صوفیاء کرام کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پہلے تعلیم مکمل کرتے ہیں اور پھر مجاہدات اور ریاضات کی منازل طے کرکے روحانی ارتقاء حاصل کرتے ہیں وہ علم و اداک پر اپنے تمام معاملات کی بنیاد رکھتے ہیں اور کسی مرحلہ اور کسی کیفیت میں بھی اپنے آپ کو تعلیم و تعلم سے مستغنی نہیں سمجھتے۔ باوجود اس کے کہ سید نا غوث اعظم ؓ مادرزاد ولی ہیں۔ آپؓ کی ولایت کسبی نہیں وہبی ہے،آپؓ نے ماہ رمضان میں دن کو اپنی والدہ کا دودھ نہ پیا تاکہ شریعت کا فطری احترام بجالائیں۔ اور یہ چیز واضح ہوجائے کہ آؓ اس حال میں شریعت کے پابند ہیں جبکہ ابھی آپؓ شریعت کے مکلف ہی نہیں ہیں۔ ان سب حقائق کے باوجود آپؓ نے تعلیم و تعلم میں وہ مشقتیں اور کلفتیں اٹھائیں کہ جو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے مشعل راہ ہیں، اور دین کے طالب علم انہین اپنا خضر راہ بنائیں تو کامیاب و کامران ہوجائیں۔ سیدنا غوث اعظم ؓ نے تحصیل علم کے ساتھ ساتھ بے پناہ مجاہدات اور ریاضات کی منزلیں بھی طے کیں۔ آپؓ عراق کے صحراؤں اور ویرانوں میں مصروف عبادت رہے آپؓ فرماتے ہیں اس دوران نہ میں کسی کو پہچانتا تھا نہ کوئی مجھے جانتا تھا۔میرے پاس جنات اور رجا ل الغیب گروہ در گروہ آتے رہتے،میں انہں معرفت الٰہی کا راستہ دکھتا تھا۔عراق میں داخل ہوتے ہی حضرت خضر علیہ السلام کی مجھ سے دوستی ہوگئی اس وقت میں انہیں نہیں پہچانتا تھا انہون نے مجھے فرمایا کہ میں ان کی خلاف ورزی نہیں کروں کروں گا۔ ایک دفعہ وہ مجھے ایک جگہ ٹھہرا کر خود چلے گئے اور ایک سال کے بعد واپس آئے،اس طرح میں تین سال وہاں ٹھیرا رہا وہ ایک سال بعد آتے اور چلے جاتے۔سیدنا غوث اعظم ؓ کئی ساری رات مصروف عبادت رہے،رات کو مکمل قرآن حکیم ختم کرتے رہے اور جس برج میں آپؓ مصروف عبادت رہے اس کا نام ہی برج عجمی پڑھ گیا۔ سیدنا غوث اعظم ؓ نے اپنے شیخ حضرت ابوسعید مخزومی ؓ کے مدرسہ میں تدریس کا آغاز کیا اور پھر اپنے مدرسہ کی بنیاد رکھی اور مجالس وعظ کا آغاز فرمایا۔آپؓ کی مجالس وعظ ہفتہ میں تین روز ہوا کرتی تھیں، مدرسہ میں ہر جمعہ کی صبح اور منگل کی شام مجلس وعظ ہوتی اور اتوار کو رباط میں علاوہ ازیں جمعہ کے خطبات کا اہتمام ہوتا،آپؓ مدرسہ سے سوائے جمعہ کے باہر تشریف نہ لاتے۔اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی زبان میں بڑی تاثیر رکھی، ابتداء میں چند افراد آپؓ کا وعظ سننے آتے، پھر تھوڑے عرصے بعد مدرسہ کی جگہ تنگ ہوگئی، مدرسہ میں توسیع کی گئی اور پھر کھلے میدان میں مجلس وعظ کا انعقاد ہونے لگا۔ لوگ دور دور سے آتے اور سیدنا غوث اعظمؓ فرماتے ہیں لوگوں کی بھیڑ کا یہ حال رہتا کہ لوگوں کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ جاتی۔ آپؓ کے صاحبزادہ حضرت سیدعبدالوہاب قادری ؓ ان مجالس کا وعظ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سیدنا غوث الاعظم ؓ کی مجلس وعظ میں چارسو علماء کی دواتیں شمار کی گئیں جو آپؓ کے ملفوظات نقل کرتے۔ سیدنا غوث اعظم ؓ کے وعظ کا یہ سلسلہ تیئس سال جاری رہا۔ سیدنا غوث اعظم ؓ کی مجالس وعظ میں عام انسانوں کے علاوہ بڑے بڑے اولیاء، اقطاب وابدال حاضر و شریک رہتے۔ اس مجالس وعظ کی برکات کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اکثر اوقات حضرت خواجہ خضر علیہ السلام بھی سیدنا غوث اعظم ؓ کے اجتماع میں آتے تھے اور حضرت خواجہ خضر علیہ السلام کی جس ولی سے بھی ملاقات ہوتی وہ اسے آپ کے اجتماع میں حاضر ہونے کی نصیحت فرماتے اور فرمایا کرتے تھے جو اپنی کامیابی چاہتا ہے اسے اس اجتماع میں ہمیشہ جانا چاہیے۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا موجودہ دور میں اخلاقی انحطاط کے خاتمے کی خاطرہمیں دوبارہ اسلاف کے طریق کو اختیار کرنا ہوگا- اخلاق کا درس محبت و اخوت کا پیغام ہے اور یہی درس اور پیغام سیدنا غوث اعظم ؓ اور جملہ اولیاء اللہ نے مخلوقِ خدا تک پہنچایا ہے-بالخصوص ہم تمام جو سیدنا غوث اعظم ؓ کی نسبت سے خود کو منسلک کیے ہوئے ہیں ہم پر لازم ہے کہ فقط زبانی کلامی عقیدت کی بجائے اپنے وجود کو ان کے اس طریقِ عمل اور کردار کے نمونے میں ڈھالیں، ان کی تعلیمات و تلقین کا لبادہ اپنے تن اور من پر اوڑھیں تا کہ ہمارے وجود سے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق، محبت و شریعت کی خوشبو آئے-