تعلیمی گلیاروں سے حیدرآباد و تلنگانہ

مولانا حافظ سید احمد غوری نقشبندی کوڈاکٹریٹ کی ڈگری


حیدرآباد۔18/اکٹوبر ،(راست) کنٹرولر شعبہ امتحانات عثمانیہ یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ صحافتی اعلامیہ کے بموجب مولانا حافظ سید احمد غوری نقشبندی نائب شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ کو ان کے تحقیقی مقالہ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ مولانا کا سادات علمی خانوادہ سے تعلق ہے، وہ محترم مولوی سید محمدغوری (حامد)پروپرائٹر عرش انٹرپرائزس کے فرزند سعید اور حضرت مولانا سید محمود غوری قمر نقشبندی مجددی قادری رحمہ اللہ سابق امام مسجد درگاہ حضرت محدث دکن رحمہ اللہ نقشبندی چمن حیدرآباد کے حقیقی برادرزادہ ہیں، انہوں نے ”دراسۃ و تحقیق علی المخطوط ” أکمل الوسائل لرجال الشمائل” لعبد الوھاب المدراسي رحمہ اللہ” کے موضوع پرعربی کے نامور محقق ابو الفدا مولانا پروفیسرشاہ محمد ذوالفقار محی الدین صدیقی قادری الملتانی صدر شعبہ عربی جی۔ڈی ۔سی و سابق ڈین وچیرمین بورڈ آف اسٹڈیزعثمانیہ یونیورسٹی کی نگرانی میں اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کیا، جس پر انہیں پی ایچ ڈی کے لئے مستحق قرار دیا گیا۔ موصوف’ فیض درجت حضرت ابو الخیر سید رحمت اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ فرزند وخلیفہ حضرت محدث دکن عارف باللہ ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ سے شرف بیعت رکھتے ہیں، وہ جامعہ نظامیہ کے جلیل القدر عہدہ ‘نائب شیخ المعقولات’ پر فائز ہیں، وہ اپنی ماہرانہ تدریس اور دلنشیں خطابت کے حوالہ سے علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔2022ء میں انہیں بیسٹ ٹیچر ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ وہ جامع مسجد قادری باغ عنبرپیٹ کے واعظ اور جامع مسجد حضرت بلال نواب صاحب کنٹہ کے امام وخطیب ہیں۔ انہوں نے محقق مسائل جدیدہ مولانا ڈاکٹر مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی صاحب شیخ الفقہ وصدر مفتی جامعہ نظامیہ کی تربیت ونگرانی میں اپنے تحقیقی سفر کا آغاز کیا،نیز انہوں نے تحقیق وریسرچ کے عالمی ادارہ ”ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر” میں بھی خدمات انجام دیں،وہ پختہ قلم کار،اچھے مترجم اور صاحب تصانیف ہیں،ملک وبیرون ملک کے مؤقر جرائد ومجلات میں ان کے وقیع مقالات اور علمی مضامین شائع ہوتے ہیں۔متعدد قومی وبین الاقوامی سیمینارس میں تحقیقی مقالے پیش کئے۔
” أکمل الوسائل لرجال الشمائل”دراصل یہ فن رجال کے موضوع پر ایک بیش قیمت علمی سرمایہ ہے،یہ مخطوطہ تقریباً200سال پہلے لکھا گیا تھا اور ہندوستانی علماء کی جانب سے امام ترمذیؒ کے رجال (راویان حدیث)پر لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے،جس میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ سے لیکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک 735راویوں کے حالات جمع کئے گئے،یہ کتاب اختصار وجامعیت کا اعلی نمونہ ہے۔ ریسرچ اسکالر نے اصول وتحقیق کے عالمی معیارپر نہ صرف عمدہ حواشی اور علمی تعلیقات سے اسے مزین کیا بلکہ فن رجال کی باریکیوں کا جائزہ لیا،جرح وتعدیل کی اصطلاحات کی تشریح کی، روایات،آثار واقوال کی تخریج کی،اس تحقیق کا نمایاں اور قابل قدر پہلو یہ بھی ہے کہ ریسرچ اسکالر نے ”شمائل ترمذی” کی اسناد میں موجود راویوں کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے یہ نشاندہی کی کہ یہی راوی کتب صحاح ستہ (بخاری،مسلم،ترمذی،ابو داود،نسائی،ابن ماجہ)کی اسناد میں کہاں کہاں وارد ہوئے ہیں۔اس زاویہ نگاہ سے تحقیق کرنے پر نہ صرف ”شمائل ترمذی” کی روایات کے مستند ہونے کو مزید تقویت ملتی ہے بلکہ اس کی اور صحاح ستہ کی روایات کے درمیان ایک اہم ربط اور تسلسل بھی واضح ہوتا ہے ۔اس علمی کاوش کے ذریعہ شائقین علم اور قدردان فن کے لئے استفادہ کی راہیں ہموار ہوئیں۔
مولانا کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول پرعلماء،مشائخ، اہل خانہ،تلامذہ اور محبین نے مبارک باد پیش کی۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے