مہراج گنج: 15 اکتوبر
آج کا دن تاریخ اسلام کا عظیم و انبساط آور، پر کیف دن ہے اور ہم سب حضور سیدنا شیخ عبدالقادر معروف بغوث اعظم رضی اللہ عنہ کی گیارھویں شریف کا جشن منا کر فیوض غوثیہ سے شاد کام ہورہےہیں
حضور غوثیت مآب کے ریاضات متواصلہ ومجاہدات شاقہ سے کائنات کا گوشہ گوشہ اور چپہ چپہ مکمل واقف ہے ، اور ایسا کیوں نہ ہو کہ آپ کا پورا خاندان ولایت کے آسمان پر ریاضت کے آفتاب و ماہتاب بن کر چمک رہاہے ،یہی وجہ ہے کہ ہمارے غوث اعظم نے "بغداد” کے قریب ریاضت کے لۓ ایک پرانے برج کاانتخاب فرمایا اس پرانے برج میں آپ نے گیارہ برس تک شب و روز عبادت وریاضت کی جس کی وجہ سے اس برج کا نام "عجمی برج” پڑ گیا آپ فرماتےہیں ایک مرتبہ میں نے اپنے پروردگار سے عہد کیا کہ میں اس وقت تک کچھ نہ کھاؤں گا، پیوںگاجب تک کوئی دوسرا مجھے میرے منہ میں لقمہ دے کر نہ کھلائے گا ۔متواتر چالیس روز بغیر کھاۓ،پۓ گذرگۓ۔چالیس دن کے بعد ایک شخص آیا اور کھانا میرے سامنے رکھ کر چلا گیا ۔بھوک کی شدت کی وجہ سے میرے نفس نے چاہا کہ کھانا کھا لے۔لیکن میں نے اس کی طرف مطلق توجہ نہ کی اور نفس” الجوع الجوع”یعنی ہاۓ بھوک! ہاۓ بھوک! پکارتا رہااسی اثنا میں حضرت شیخ ابو سعید مخزومی ادھر سے گزرے اور فراست باطنی سے اس شور پرآگاہ ہو کر قریب تشریف لاۓ اور مجھ سے پوچھا ۔ اے عبدالقادر! یہ شور کیسا ہے؟میں نے کہا یہ اضطراب نفس ہے مگر روح یاد الٰہی میں مطمئین ہے ۔انہوں نے فرمایا۔میرے غریب خانے پر چلو۔اور یہ کہہ کر چلے گئے ۔میں نے دل میں کہا جبتک یہاں سے کوئی خودنہ لےجاۓگا اس وقت تک نہ جاؤں گا۔ابھی اسی خیال میں تھا کہ حضرت خضر تشریف لائے اور مجھے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کے مکان پر لے گئے جہاں دروازے پر شیخ ابو سعید کھڑے انتظار کر رہے تھے۔مجھےدیکھ کر فرمایا عبدالقادر!کیا میرا کہنا کافی نہ تھا کہ حضرت خضر کے کہنے کی ضرورت پڑی؟یہ کہہ کر مجھے گھر میں لے گئے اور اپنے ہاتھ سے میرے منہ میں لقمے ڈال کر کھانا کھلایا،اور فرمایا اے عبدالقادر تم خود نہیں کھا رہے ہو بلکہ میں تمہیں خدا کےحکم سے کھلا رہاہوں ،اب تمہارا عہد پورا ہوچکاہے ،اسلوب زندگی کے مطابق ہرشاگرد اپنے استاذ سے فیض وتبرک کے حصول کا طلب گار ہوتا ہے مگر اس واقعہ سے بھی آپ کی عظمت شان کااظہار ہوتاہےکہ آپ کےاستاذ اصول وفقہ،مرشد طریقت ومعرفت خواجہ قاضی ابو سعید مخزومی بارہا فرمایا کرتے تھے "لبس عبدالقادرالجیلی منی خرقۃ ولبست منہ خرقۃ فیتبرک کل واحد منا بالاخر "یعنی عبدالقادر جیلانی (غوث اعظم )نے میرے دست فیض سےایک خرقہ زیب تن فرمایا اور میں نے بھی آپ کے دست اقدس سے ایک خرقہ پہنا تاکہ ہم دونوں قیامت تک ایک دوسرے سےبرکت اور فیض حاصل کرتے رہیں مذکور ہ باتیں ماہر اسلامیات ،دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم کے استاذ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی نے ایک پریس ریلیز میں کہیں ،انہوں نے یہ بھی کہا کہ حضور غوث اعظم کا مشہور زمانہ لقب "محی الدین ” بایں وجہ ہے کہ آپ ایک مرتبہ ایک جمعہ کے روز سفر سے پا برہنہ بغداد کی طرف واپس آرہے تھے ایک نہایت ہی لاغر اور نحیف بیمار پر آپ کا گزر ہوا۔اس نے کہا السلام علیک یا عبدالقادر! آپ نے سلام کا جواب دیا ۔وہ کہنے لگا” مجھے اٹھاؤ” آپ نے اٹھا کر بٹھا دیا تو اچانک اس کا چہرہ بارونق اور جسم موٹا تازہ ہوگیا ۔حضور نے فرمایا میں حیران ہوا تو کہنے لگا ۔تعجب کی بات نہیں ۔میں آپ کے جد پاک صلی اللہ علیہ وسلم کالایاہوا دین ہوں۔جو مردہ ہو رہا تھا ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے مجھے نئی زندگی عطا فرمائی ہے ۔آپ محی الدین ہیں ۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی "شرح مشکوٰۃ شریف” میں فرماتے ہیں کہ "اسلام” ظاہری اعمال کا نام ہے "ایمان”باطنی اعتقاد کااور”دین” ہر دو کے مجموعےکو کہتے ہیں گویا "دین” وہ جامع نظام ہےجو بنی نوع انسان کے عقائد و اعمال ،ظاہروباطن،صورت و معنی ،روحانیتوجسمانیت پر مشتمل ہے ۔ایسےنظام کا احیاء نبئمرسل یا اس کے کامل ترین ناںٔب کے بغیر مکمن نہیں ۔اگرچہ آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر صدی کےسرےپر ایسی ہستیوں کی نشاندھی فرمائ۔جن سے تجدید دین کا فریضہ انجام پذیر ہوتاہے ۔مگرتجدید اور احیاء میں ایک
نمایاں فرق ہے ۔مجد دین کی فہرست میں ابتداء سے لے کر اس وقت تک بہت سے حضرات کے اسماۓ گرامی پاۓجاتےہںں ۔مگر "محی الدین” کا لقب کسی اور کو عطا نہیں ہوا۔تاریخ اسلام کے مطالعہ سے یہ امر پایئہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ احیاۓ دین کا اہم ترین فریضہ حقیقتہ” غوث اعظم کی ذات گرامی قدر ہی سے پا یہ تکمیل کو پہنچا اور یہ عظیم الشان لقب صرف آپ ہی کے وجود مسعود پرصادق آتا ہے۔انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ آج کے روز حضور غوث اعظم کے وصال کی تاریخ ہے اس لۓ اوراد وظائف اور قرآن کی تلاوت کر کے حضرت کی روح کو ایصال کرن اور فیوض وبرکات سے مالا مال ہونا ،حضور ممدوح کی عقیدت کا چراغ روشن کرنا دارین کی سعادتوں سے بہرہ مند ہوناہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسی راہ عقیدت پر تاحیات گامزن رکھے-
