اس خاکدان گیتی پر سیکڑوں انسان بستے ہیں اور اپنی متعینہ زندگی گزار کر دار بقا کی طرف کوچ کر جاتے ہیں۔ بیشتر انسان اپنے مقصد کو فراموش کرکے دنیا کو پانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور از صبح تا شام لہو و لعب میں مصروف ہوکر اپنا قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں انہیں ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا کہ گزرا ہوا وقت دو بارہ کبھی بھی واپس نہیں آئے گا۔
مگر اسی نیلگوں آسمان تلے اللّٰہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے بھی بستے ہیں جو اس کی رضا کے حصول کے لیے حتی المقدور کوشش کرتے ہیں اور اپنا قیمتی وقت کار خیر میں صرف کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے مقدس کلام کو حفظ کرکے خود کو شریعت مطہرہ کے اصول پر عمل پیرا کرنے کی جہد مسلسل کرتے ہیں چنانچہ
مدرسۃ المدینہ فیضان صدّیق اکبر اعظم گڑھ (دعوت اسلامی انڈیا) کے ایک ہونہار طالب علم حافظ محمدریحان عطاری بن عبدالکریم (ساکن بہرائچ شریف)نے مدرسۃ المدینہ کے پرنسپل حضرت مولانا محمد اقبال حسین صاحب مصباحی کی سرپرستی اور اپنے استاد خاص حافظ وقاری مولانا یونس رضا مصباحی کی نگرانی اور مدرسۃ المدینہ کے دیگر اساتذہ وطلبہ کی موجودگی میں ایک نشست میں مکمل قرآن پاک سناکراپنے اساتذہ اور والدین کا سر فخر سے اونچا کردیا۔
ایک نشست میں مکمل قرآن سنانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، بلکہ یہ بڑی محبت، محنت، لگن اور ہمت کا کام ہے۔
یقیناً یہ وہ نورانی سعادت ہے جس کے مد مقابل تمام لطف و کرم اور سعادتیں ثانوی درجہ رکھتی ہیں۔
قرآن مجید کی یہ جلالت شان ہے کہ جس کی عظمت و شوکت پہاڑ نہ برداشت کر سکے آج نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت کے لاکھوں ہونہار بچے اپنے سینوں میں بسا لے رہے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اُتارتے تو ضرور تو اُسے دیکھتا جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللہ کے خوف سے اور یہ مثالیں لوگوں کے لیے ہم بیان فرماتے ہیں کہ وہ سوچیں ۔‘‘ ( الحشر:21)
یعنی قرآنِ مجید کی عظمت و شان ایسی ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر اتارتے اور اُس کو انسان کی سی تمیز عطا کرتے تو انتہائی سخت اور مضبوط ہونے کے باوجود تم اسے ضرورجھکا ہوا اور اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے ،ہم یہ اور اس جیسی دیگر مثالیں لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ سوچیں (اور خیال کریں کہ جب ہم اشرف المخلوقات ہیں تو چاہیے کہ ہمارے اعمال بھی اشرف و اعلیٰ ہوں۔) (مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۱۲۲۸، خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۲۵۳، ملتقطاً).
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قلب شریف پہاڑسے زیادہ قو ی اور مضبوط ہے کیونکہ آپ کو اللّٰہ تعالیٰ کا خوف اور اَسرارِ الٰہی سے واقفیت کامل طریقے سے حاصل ہونے کے باوجود آپ اپنے مقام پر قائم ہیں ۔(صراط الجنان)
یقیناً قرآن پاک کا حافظ ہونا بہت ہی اکرام و اعزاز کی بات ہے،کل قیامت کے روز حافظ قرآن اور حافظ قرآن کے والدین کو امتیازی مقام ومرتبہ عطا کیا جائےگا اور اعزاز واکرام سے نوازا جائے گا-
اللہ کریم عزیزمحافظ ریحان عطاری سلمہ کو مزید علوم دینیہ کے حصول کی توفیق بخشے۔
اس موقع پر تمام اساتذہ وذمہ داران نے حافظ ریحان کو مبارکباد دیتے ہوئے گل پوشی فرمائ،اعظم گڑھ کے ڈسٹرکٹ نگران کوثر عطاری صاحب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوۓ حافظ ریحان عطاری سلمہ کو ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا ۔


