حیدرآباد و تلنگانہ مذہبی گلیاروں سے

حضوراقدسﷺ تمام علوم و فنون کا سر چشمہ۔ آپ کی اُمیت آپ کا منفرد اعزاز۔ مولانا ممشاد پاشاہ کا خطاب

حیدرآباد: 27 ستمبر ( راست)
حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لئے ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ بناکر بھیجا ،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ نہیں تھے بلکہ تلمیذالرحمٰن تھے بارگاہ الٰہی سے پڑھ کر آئے تھے ،ایسا پڑھے کہ کسی سے پڑھنے کے محتاج ہی نہیں تھے ۔یہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا اعجاز اور کمال تھا۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات شمع فروزاں ہیں،جس کے نور سے آج بھی بھٹکے ہوئے انسان ہدایت و روشنی پارہے ہیں اور تاقیام قیامت یہ سلسلہ جاری رہنے والا ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیضان علم کے ایسے گوہر لٹائے کہ جنہیں چن کر سینے کے ساتھ لگانے والے بھی انسانیت کے تاجدار بن گئے ۔ اسلام کے دشمنوں نے بھی اپنی کتابوں بارگاہ رسالت سے فیضیاب ہونے والوں کو خراج تحسین پیش کیاہے ۔ ان خیالات کا اظہار نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے اہم گوشوں میں سے ایک گوشہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شانِ امیت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ ‘‘اُمی’’ لفظ کے بے شمار معانی ہیں جن میں سے ایک معنی یہ ہے کہ ایسی شخصیت جو کسی سے پڑھی نہ ہو اور ساری دنیا کے علوم اسے آتے ہوں، یہی معنی حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے، اسی وجہ سے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو ‘‘اُمی’’ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کبھی کسی سے تعلیم حاصل کی اور نہ ہی کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام حیات ظاہری کسی فردِ بشر کی شاگردی سے مبرا ہے اس لیے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ‘‘اُمی’’ ہونا آپ کی نبوت کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حق تعالیٰ سے علم حاصل کیا اور صرف اسی سے کسبِ فیض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہی حضور اقدس کو دنیا و آخرت کی ہر چیز کا علم براہِ راست اپنی بارگاہ سے عطا فرمایا۔‘‘اُمی ’] کا معنی بعض لوگ ان پڑھ بیان کرتے ہیں جو لغت کے اعتبار سے بالکل غلط ہے۔ حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمیؒ نے لفظ ‘‘ اُمی ’’ چند معنی بیان کئے ہیں ، کہتے ہیں ام کہتے ہیں ماں کو اور اصل کو ، یا تو اس کے معنی ہیں ماں والے نبی ، دنیایں ہر آدمی ماں والا ہوتا ہے مگر جیسی ماں اللہ تعالیٰ نے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی ایسی ماں دنیا میں کسی کو نہیں ملی ۔حضرت مریم ؓ بھی ماں گذریں ، مگر جیسے سیدالانبیاء بے مثل و بے مثال ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ؓ بھی بے مثل و بے مثال ۔جو سیپ اپنے پیٹ میں قیمتی موتی رکھتی ہے وہ سیپ بھی قیمتی ہوجاتی ہے تو جو مبارک ماں اپنے پاک پیٹ میں اس دریکتا کو رکھے وہ کیسی مبارک ہوگی ۔دوسرے معنی ہیں بے پڑھے یعنی والدہ کے پیٹ سے عالم پیدا ہوئے کسی سے پڑھا لکھا نہیں ۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم بے سایہ ہیں ، مگر تمام دنیا پر آپ کا سایہ ہے۔ تیسرے معنی ہیں اُم القروی یعنی مکہ مکرمہ کے رہنے والے ۔چوتھے معنی ہیں یعنی تمام عالم کی اصل یہ ہیں۔ علامہ آلوسی ؒ فرماتے ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اُمی مبعوث فرمانے میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی طرف اشارہ ہے جب وہ کسی کے سینے کو علوم و معارف سے لبریز کرتا ہے تو اسے کسی سے تحصیل علم میں مروجہ طریقوں کی ضرورت نہیں رہتی ۔ علامہ اسلاعیل حقی ؒ نے فرمایا قلم اعلیٰ، جس کا خادم ہواور لوح محفوظ جس کی نگاہوں میں ہو اس کو نوشت خواندگی کی کیا ضرورت ہے اور جاننے کے باوجود نہ لکھنا یہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا روشن معجزہ ہے ۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم ، معلم اعظم ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُمی قرار دینے کی بہت ساری حکمتیں ہیں ان میں سے ایک اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی استاد سے کچھ پڑھا ہوتا اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اظہار نبوت و رسالت فرماتے اور احکامِ الہٰی بیان کرتے تو شک کرنے والے حاسدین اور معاندین یہ تہمت عائد کرتے کہ یہ احکام منجانب اللہ نہیں، یہ وحی الہٰی نہیں بلکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات فلاں کتاب سے پڑھ کر یا فلاں استاد سے سیکھ کر بیان کررہے ہیں۔ یوں انہیں شانِ نبوت میں تنقیص کا موقع مل جاتا،یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منصبِ نبوت کو اس اتہام سے بچانے کے لیے اور تمام کسبی علوم سے اکتساب کے امکان کو رد کرتے ہوئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی چالیس سالہ حیاتِ مقدسہ کا ایک ایک لمحہ ان کے سامنے رکھا۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بھرپور مجلسی، ثقافتی، عائلی اور سماجی زندگی بسر کی، لیکن دنیاوی علم کے حصول کی کبھی دل میں خواہش پیدا نہ ہوئی۔ کسی کے در پر حصولِ علم کے لیے دستک دینا بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس و اعلیٰ کے منافی ہوتا۔ اکتسابی علوم کے حصول کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ اس کافقط اتنا ہی سبب تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیا گیا تھا کہ اے محبوب ! علم کے سارے خزانے آپ کے قدموں کی خیرات ہیں۔ چنانچہ وقت آنے پر یہ سارے خزانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کھلتے گئے اور سارے علومِ غیب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف ہوتے چلے گئے۔علامہ خازنؒ لکھتے ہیں،حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمی ہونا کوئی اتفاقی بات نہ تھی بلکہ اُمی ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا پھر ایسی کتاب بھی لائے جس میں اولین و آخرین کے علوم و غیوب ہیں۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمی ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول من جانب اللہ ہونے اور قرآن کے کلامِ الہٰی ہونے پر ایک بڑی شہادت ہے۔ پس اس لیے اُمی ہونا اگرچہ دوسروں کے لیے کوئی مدح کی صفت نہیں مگر حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ِ مدح و کمال کی عظیم صفت ہے ۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے