مولانا غیاث الدین کا انتقال ناقابل تلافی خسارہ ۔ لطیف الرحمن مصباحی
موتی ہاری (عاقب چشتی)
كلیانپور مشرقی چمپارن کے مرکزی ادارہ مدرسہ اسلامیہ حیدریہ ضیاء العلوم کے سابق پرنسپل مولانا غیاث الدین مصباحی کے ایصال وثواب کی محفل میں شامل علماء کرام کا پر مغز خطاب ہوا۔ جس میں متعدد علمائے کرام نے اپنے تجربات کو علمی سانچے میں پیش کیا۔ محفل کا آغاز قاری اطہر شمشی کی ترنم بھری آواز میں تلاوت کلام ربانی سے ہوا بعدہ نعت و منقبت پیش کیا گیا۔ مولانا لطیف الرحمن مصباحی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں،اس دنیا میں جنم لینے والی ہر شے کا مقدر فنا ہے، کسی کو بھی یہاں دوام نہیں، ہر آنے والی صبح اور ڈھلتی ہوئی شام ہمیں یہی خبر دیتی ہے، آنے جانے کا یہ سلسلہ روز اول سے ہی جاری ہے، لیکن انہیں جانے والوں میں کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے جانے سے آنکھیں اشکبار اور دل بے قرار ہوجاتا ہے. آج ہم لوگ انہیں جانے والے میں سے قوم و ملت کا کامیاب گوہر، استاذ العلماء مولانا غیاث الدین صاحب کے چہلم کی محفل میں بیٹھے ہیں حضرت ایک مشفق و مربی استاد تھے ان کے گلشن حیات میں سینکڑوں کلیاں کھلی اور کھل کر گلاب بن کر دنیائے اسلام کو اپنے اخلاق و کردار، علم و عمل کی خوشبؤں سے شرابور کر رہا ہے۔
مولانا محبوب عالم رضوی نے کہا کہ کسی عالم با عمل کی موت کی خبر سننے کو ملتی ہے تو سمجھ دار انسان پر سکتے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آج ہم کسی قریبی عزیز یا سرپرست کی شفقتوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ چلچلاتی ہوئی دھوپ میں بادلوں کا سایہ ہم سے ہٹ گیا ہے، زمین قدموں کے نیچے سے سرک گئی ہے،بہاریں ہم سے روٹھ گئی ہیں، اور دل میں خیال ابھرتا ہے کہ اب ہم روحانی توانائی کہاں سے حاصل کریں گے۔ سینہ غم سے تنگ ہو جاتا ہے، آنکھیں پُر نم ہو جاتی ہیں، یوں سمجھیں کہ ان کے چلے جانے کے بعد دنیا ویران نظر آتی ہے۔ مگرجب عالم باعمل کی وفات پر ان کے ہم عصروں اور شاگردوں کے خوبصورت الفاظ اور دعائیں سننے کو ملتی ہیں تو دل گواہی دیتا ہے کہ بامقصد زندگی تو انہی کی تھی ۔سعادت کی موت بھی انہی کی ہے جو مرتے دم تک رب کا قرآن اور نبی ﷺکا فرمان سنا گئے اور اپنے رب کے فضل اور نیک اعمال کے ذریعے دنیا کی نیک نامی کے ساتھ ساتھ آخرت کی کامیابیوں کو سمیٹ گئے۔
نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث ذہن میں آتی ہے کہ” اللہ تعالی علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں ( کے سینوں ) سے ہی چھین لے۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ چنانچہ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سے عظیم علماء کو دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا اور ہر عالم کی موت کے بعد محسوس کیاکہ مدتوں تک ان کا خلاء پورا نہیں ہو سکے گا۔
مولانا منور حسین رضوی نے کہا کہ حضرت ہمارے مشفق استاد تھے انھوں نے کلیانپور کے مدرسہ اسلامیہ حیدریہ ضیاء العلوم کو ایک مرکزی پہچان دلائی آج ان کے سینکڑوں شاگرد دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں کوشاں ہیں ۔
اس موقع سے مولانا عبد الشکور، مولانا مفتی الطاف حسین، پیر طریقت حضرت علامہ مولانا شاہد کلیم، مولانا حسام الدین، مولانا اقبال احمد، مولانا اطیع اللہ سمیت سینکڑوں افراد موجود تھے۔