- اعلیٰ حضرت تحفظ ناموس رسالتﷺ کے محرک اعظم تھے : مفتی غلام حسین ثقافی
- اعلیٰ حضرت نے زمانے کو استدلال کی زبان عطا کی ہے : مفتی غلام سرور
- امام اہلسنت کے علمی مہارت اور فنی بصیرت کا اعتراف علماء عرب نے بھی کیا : مفتی غلام اختر نوری
- اعلیٰ حضرت ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے : مفتی عبدالباسط
- مجدد اعظم نے تصوف سے لبریز کامیاب زندگی گزاری: مولانا راشد حسین
- خاندان اعلیٰ حضرت ولایت کے عظیم شاہکار ہیں: مفتی غلام رسول اسماعیلی
- مرکزی ادارہ شرعیہ میں ١٠٦واں عرس اعلی حضرت کے موقع سے عظیم الشان اجلاس كاانعقادہوا،اعلی حضرت کی علمی فکری خدمات پر علمائے کرام کاانقلابی خطاب ہوا۔
پٹنہ
مورخہ 31/اگست2024بروزسنیچر مرکزی ادارہ شرعیہ کی جدیدعمارت میں اعلی پیمانے پر عرس اعلی حضرت کااجلاس انعقادکیاگیا۔ جس میں ادارہ شرعیہ کےتمام اساتذہ،طلباواراکین کے علاوہ کٹیرتعداد میں عوام اہلسنت نے شرکت کی۔بعدنمازمغرب تا عشاء ادارہ شرعیہ کےطلباءکا انقلاب آفریں پروگرام ہوا. بعد نماز عشاء ادارہ شرعیہ کے موقر علماء کرام نے امام اہلسنت اعلی حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کی ہمہ جہات شخصیت کے حوالہ سے منتخب موضوعات پرگفتگو فرمائی۔
ادارہ شرعیہ کے صدر مفتی فقیہ ملت علامہ مفتی حسن رضا نوری نے کہاکہ اللہ جل مجدہ کی فیاضی سے علم فقہ میں جو تبحر و کمال اعلحضرت کو حاصل تھاوہ بہت کم علماء کرام کو حاصل ہوا ہے۔
یہی وجہ ہےکہ آپ کی فقاہت کو عرب و عجم مشارق و مغارب کے علماء کرام نے گردنیں جھکا کر تسلیم کیا ہے۔
اعلی حضرت کی زندگی کا ایک بڑا حصہ فتویٰ نویسی اور علمی مشغلے میں گزرا، فتویٰ نویسی آپ کی زندگی کا بہت نمایاں پہلو ہےجسکی بین دلیل فتاوی رضویہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ سرکار اعلحضرت کا قلم جہاں دنیا بھر کو فقہ اسلامی کے فیصلے دیاہےوہیں تمام بد مذہبوں کو دندان شکن جواب اوران کے مشن کی سرکوبی کیاہے۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں بے حد مسرت اورخوشی اس بات پر ہورہی ہے کہ ہمارے اساتذہ جس طرح درسیات میں ماہر ہیں یوں ہی میدان خطابت میں بھی خوب ہیں۔
ادارہ شرعیہ کے نائب قاضی شریعت مفتی غلام حسین ثقافی نےاپنے خطاب میں کہاکہ اعلی حضرت امام اہلسنت نےامت کارشتہ عشق رسالت سے مضبوط ومستحکم کیاہے،عقیدہ توحیدکےبعدعقیدہ رسالت کامعیار اعلی حضرت نے بتایاہے۔آج جہان کہیں بھی یارسول اللہ کی گونج سنائ دیتی ہے وہ امام رضاکااحسان ہے۔اعلی حضرت نےپوری زندگی عاشقوں کے ایمان وعقیدے کا تحفظ فرمایا اور بدعقیدگی کے امنڈتے ہوئے تنقیص رسالت کے فتنہ کبری کاخاتمہ کیاہےاور اپنی تحریر ،تقریر،تصنیف اور تحریک کے ذریعہ ذریعہ ۱۴؍ویں صدی میں اٹھنے والے ہر فتنہ اور گمرہی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا.
مزید انہوں نے کہاکہ اعلی حضرت نے انسانی زندگی کے جتنے بھی مراحل ہیں ہرمرحلوں کے محاذپرتاحیات عشق مصطفیٰ کی پاسبانی فرماتے رہے اورعشق مصطفی اور محافظ ناموس رسالتﷺ کے محرک اعظم رہے۔
ادارہ شرعیہ کے ماہر اور قابل استاذ مفتی غلام سرورمصباحی صاحب نے اعلی حضرت استدلال کی دنیا میں شاندار خطاب فرمایا انہوں نے کہاکہ ہر مفتی اور فقیہ جزیات ودلائل تلاش کرتے ہیں لیکن میرے اعلی حضرت کی شان یہ ہے کہ جزیات ودلائل انہیں تلاش کرتی ہیں۔
اعلیٰ حضرت کا مقام تفقہ اس قدر بلند تھا کہ جب بڑے بڑے علماء کسی مسئلےکے حل سے عاجز آجاتے اور مسئلہ حل نہ کر پاتے تو اعلی حضرت کی بارگاہ میں وہ سوال پیش ہوتا اور آپ اس کا مدلل، محقق اور حتمی جواب عطا فرماتے، جیسے ایک بڑا مشہور کرنسی نوٹ کا مسئلہ سامنے آیا کہ اعلیٰ حضرت کے زمانے میں کرنسی نوٹ کی ایجاد ہوئی تھی اور اس سے پہلے دوسرے سکے چلتے تھے۔ جب یہ نوٹ آئے تو شرعی حیثیت واضح نہ تھی کہ شرعی نقطہ نظر سے اِس کا حکم کیا ہے۔ کیا یہ سونے چاندی کی رسید ہے یا یہ سکوں کی طرح ثمن ہے۔ بڑے بڑے علماء و فقہاء اس کی شرعی حیثیت کے تعین سے عاجز آگئے ، تو اجلہ علماء و فقہاء کی طرف سے اعلی حضرت کے سامنے جب یہ سوال آیا، تو آپ نے اس کے جواب میں ایک پورا رسالہ بنام ”کفل الفقیہ الفاھم فی احکام القرطاس والدراھم“تحریر فرمایا ۔ جب وہ رسالہ علماء کے سامنے پیش کیا گیا ، تو سب اعلیٰ حضرت کی علمیت و فقاہت پر دَنگ رہ گئے اور اندازہ ہوا کہ فقاہت کسے کہتے ہیں کہ جن باتوں کو انہوں نے پڑھا تو تھا ، لیکن ان سے استدلال نہیں کر پا رہے تھے، اعلیٰ حضرت نے ان ہی چیزوں سے استدلال فرماکر مسئلہ حل کردیا۔
انہوں نے کہاکہ استدلال کی زبان عطا کرنے والی شخصیت کا نام اعلی حضرت فاضل بریلوی ہے۔
ادارہ شرعیہ کے صوفی اور دیندار استاذ مفتی غلام اختر نوری صاحب نے کہاکہ
امام اہلسنت کے علمی مہارت اور فنی بصیرت کا اعتراف علماء عرب نے کیا۔ گویا آپ مرجع علماء عرب رہے۔ عرب کے اکابر علماء آپ سے سند حدیث اور اجازت حدیث حاصل کی۔
حد تو اس وقت ہوگئی جب میرے اعلی حضرت چند گھنٹوں میں الدولۃ المکیہ فی مادۃ الغیبیہ لکھر علماء عرب کے مابین ایک خاص مقام حاصل کرلیا۔عرب آج بھی عجم والوں سے نکاح اور عقد کو معیوب سمجھتاہے لیکن میرے اعلی حضرت کی شان یہ ہے کہ علماء عرب نے ببانگ دہل کہاکہ احمد رضا اپ یہاں نکاح کرلیں تاکہ آپ باربار ہمارے دیار میں آئیں اور ہم سب زیادہ سے زیادہ مستفید و مستفیض ہوتے رہیں۔
ادارہ شرعیہ کے لائق اور فائق استاذ مفتی عبدالباسط مصباحی نے اپنے خطاب میں اعلی حضرت کے انقلاب آفریں زندگی کے انمول حصوں کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ اعلی حضرت کی شان یہ ہے کہ جس طرح آپ کی ذات بابرکت ہے یوں ہی آپ کا نام بھی بابرکت ہے تجربہ کر دیکھا نام اعلی حضرت سے ایمان بھی محفوظ رہتا ہے اور اور عقیدہ بھی مامون رہتا ہے
انہوں نے کہاکہ کمال علمی کا یہ حال کہ آپ کی مہارت بالکل منفرد نوعیت کی تھی۔ آپ کی علمیت اور فقاہت انتہائی اعلیٰ، شاندار اور مسائل میں نظر اس قدر دقیق اور جید تھی کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں۔
انہوں نے تمثیلی طور پر بچپن کے کچھ حالات بیان کر کہاکہ اعلی حضرت کے بسم اللہ خوانی کی رسم کے موقع پرایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ آپ کے استاذ محترم نے بسم الله الرحمن الحیم کے بعد الف؛ ب ت ث ج وغیرہ حروف تہجی آپکو پڑھانا شروع کیا۔ استاذ کے بتانے کے مطابق آپ پڑھتے گئے۔ جب لام الف کی نوبت آئی تو استاذ نے فرمایا کہو لام الف تو اعلی حضرت خاموش ہو گئے اور لام الف نہیں پڑھا۔ استاذ صاحب نے دوبارہ کہاکہ کہو لام الف، اعلیٰ حضرت نے کہا یہ دونوں حرف میں پڑھ چکا ہوں۔ الف بھی پڑھا اور لام بھی پڑھ چکا ہوں۔ اب دوبارہ کیوں پڑھایا جا رہا ہے ؟محفل بسم اللہ خوانی میں جد امجد حضرت مولانا شاہ علی رضاء خال قدس سرہ العزیز موجود تھے۔ فرمایا بیٹا استاذ کا کہا مانو جو کہتے ہیں پڑھو۔ اعلحضرت نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے لام الف پڑھا۔ لیکن اعلیٰ حضرت نے جد امجد کی طرف مستفسرانہ نگاہ ڈالی۔ حضرت جد امجد نے اسکی وجہ بیان فرمائی۔
انہوں نے کہاکہ جنکا بچپنا اتنا باکمال ہے تو لڑکپنا کتنا باکمال رہاہوگا۔یقینا اعلی حضرت ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔
ادارہ شرعیہ کےاستاذمولانا راشد حسین مصباحی نے تصوف کی تعریف اور اسکے متقاضیات کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ اعلی حضرت کی ذات مکمل تصوف کی عبارت تھی۔
انہوں نے فتاوی رضویہ کے حوالہ سے تصوف پر غامض بحث کو سماعت کے دسترخوان پر پیش کرتے ہوئے امام اہلسنت کی زندگی کے کئی ایک صوفیانہ گوشے کو بیان کیا
انہوں نے کہاکہ اعلیٰ حضرت نہ صرف فرائض و واجبات کی ادائیگی کے سختی سے پابند تھے، بلکہ سنن و نوافل و مستحبات کو بھی ترک نہ فرماتے۔
انہوں نے کہاکہ مرید مرشد پر فخر کرتاہے لیکن اعلی حضرت کی شان یہ ہے کہ مرشد مرید پر فخر کرے اور سبب نجات مانے۔
استاذ مرکزی ادارہ شرعیہ مفتی غلام رسول نے اعلی حضرت تعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ اعلی حضرت اپنے عہد کے عظیم داعی اسلام، دوراندیش مفکر، بہت بڑے محدث، محقق، مدقق، مصنف اور عظیم عاشق رسول تھے۔
انہوں نے کہاکہ ایک ہےدین پھیلانا اور ایک ہے دین بچانا دین کو پھیلایا نبیوں کی مکرم ذوات نے اور دین مکمل فرمایاآقاکریمﷺ نے اور بچایا صحابہ نے تابعین نے تبع تابعین نے ائمہ کرام اور جب چہار جانب سے فتنوں کا ظہور ہوا تو فتنوں کی سرکوبی کی امام احمد رضاخان نے۔
انہوں نے اعلی حضرت کے خاندانی حالات کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ اعلی حضرت کے اصول بھی لاجواب ہیں اور فروع بھی لاجواب ہیں انہوں اعلی حضرت کے مورث اعلی حضرت شاہ سعید اللہ خان علیہ الرحمہ سے لیکر اعلی حضرت تک مختصر حالات بیان کرتے ہوئے کہاکہ خاندان اعلی حضرت ولایت کے شاہکار ہیں۔ مرکزی ادارے شرعیہ کے استاذ الحفاظ استاذ القرا حضرت حافظ و قاری محمد اکمل حسین حضرت قاری برہان الدین صاحب نے نہایت ہی عشق میں ڈوب کر رنگ رضا کے ماحول میں نہ تو منقبت کا گلدستہ پیش کیا
ادارہ شرعیہ کے پرنسپل مولانا قاری نوازش کریم فیضی،مفتی وسیم اختر،مفتی شارق رضا کوالیفائی بی پی ایس سی،حضرت حافظ فخرالدین رضوی، حافظ قاری معراج احمدفریدی نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ قاری اکمل حسین،قاری برہان فیضی نے بھی خراج عقیدت پیش کیا.خطاب کرنے والے طلبامیں مولانا توفیق تربیت افتا،مولانا محمد حسنین حسین تربیت افتا، محمد توفیق رضا جماعت فضیلت محمد عنایت رضا جماعت فضیلت محمد توصیف محمد کوثر جماعت فضیلت محمد فضیل رضا نہ تو منقبت پیش کرنے والے طلبہ محمد غلام غوث جماعت ثانیہ محمد اغاز انجم جماعت فضیلت محمد ثاقب رضا جماعت سادسہ محمد غلام غوث ثانیہ محمد سبیل رضا جماعت فضیلت محمد زبیر رضا جماعت ثانیہ عبدالماجد جماعت ثالثہ محمد فرحت جماعت اولی اصف رضا درجہ حفظ محمد رہبر رضا درجہ حفظ نے خراج عقیدت پیش کیا.
عرس اعلی حضرت کی تمام تقریبات کوکامیاب بنانے میں جماعت فضیلت کے طلباء نے اہم رول اداکیا۔اجلاس کااختتام صدرمفتی محمدحسن رضانوری کی رقت انگیز دعا پر ہوا۔

