- قدیمی جامع مسجد میں تقریب چہلم اور عرس داتا علی ہجویری علیہ الرحمہ کا انعقاد
پٹنہ: کربلا کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک عظیم اور دلخراش واقعہ ہے جو ۱۰ محرم ۶۱ ہجری کو عراق کے شہر کربلا میں پیش آیا۔ اس سانحہ میں نواسہ رسول امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے عظیم قربانی دی۔ جب یزید نے خلافت سنبھالی تو اس نے مسلمانوں پر اپنی بادشاہت مسلط کرنے کی کوشش کی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے طرز حکومت اور غیر اسلامی رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بیعت کرنے سے انکار کیا اور مدینہ سے مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کی۔یزید نے امام حسین رضی اللہ عنہ پر اپنی بیعت کا دباؤ ڈالا، لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی اور اسلام کی حفاظت کے لیے مکہ مکرمہ سے کوفہ کی طرف روانگی کی۔ راستے میں کربلا کے مقام پر ان کا قافلہ یزید کی فوج کے ساتھ آمنا سامنا ہوا۔ کربلا کے میدان میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے بے مثال جرات اور صبر کا مظاہرہ کیا۔ بھوک اور پیاس کی شدت میں بھی انہوں نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ ۱۰ محرم کو امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل بیت اور ساتھیوں نے شہادت پائی۔۲۰ صفر سن ۶۱ ہجری کے دن اسیران کربلا شام سے کربلا لوٹے اور سب نے شہداء کربلا کی زیارت کی۔ اس دن محبان اہل بیت، کسب وکار چھوڑ کرامام کی محبت میں اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہیں۔
مذکورہ خیالات کا اظہار استاذ مرکزی ادارہ شرعیہ مفتی غلام رسول اسماعیلی خطیب وامام قدیمی جامع مسجد محمد پور نے یوم چہلم شریف اور عرس داتا پیر علی ہیجویری علیہ الرحمہ کے موقع پر منعقدہ محفل میں کیا۔
انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کربلا کا واقعہ مسلمانوں کے لیے حق و باطل کی لڑائی کی ایک عظیم مثال ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی نے اسلام کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔کربلا ہمیں ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ جانے اور حق کی راہ پر قائم رہنے کا درس دیتاہے۔
مزید انہوں نے کہاکہ کربلا اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی کو یاد
رکھنا اور اس سے سبق حاصل کرنا ہر مسلمان کا
فرض ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حق وصداقت کی راہ میں مشکلات اور مصائب کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے، لیکن اصولوں پر قائم رہنا ضروری ہے۔
شہادت حسین رضی اللہ عنہ میں تمام مسلمانان عالم کے لئے یہی پیغام ہے کہ حسینیت محرم الحرام کے رسوم و رواج کو نبھانے کا نام نہیں بلکہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی سربلندی کے لئے قربانی دینے کا نام ہے۔ حسینیت منافقانہ رویے کا نام نہیں بلکہ ببانگ دہل حق کی آواز بلند کرنے کا نام ہے۔
بعدازاں انہوں نے داتا علی ہجویری علیہ الرحمہ کے حوالہ سے فرمایا کہ امام طریقت‘ رہبرِ شریعت‘ علوم ظاہروباطن کے مرشد کامل علی بن عثمان گنج بخش ہجویری جلابی عظیم المرتبت اولیاء میں سے ہیں۔ آپ کی کنیت ابوالحسن ہے اور حضرت داتاگنج بخش کے نام سے مشہور ومعروف ِزمانہ ہیں۔ آپ حسنی سادات کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کا شجرئہ نسب مخدوم علی بن عثمان بن سیّد علی بن عبدالرحمان بن سیّد عبداللہ (شجاع شاہ) بن ابوالحسن علی بن حسین اصغر بن سیّد زید شہید بن حضرت سیّدنا امام حسن بن حضرت علی رضی اللہ عنھم پر مکمل ہوتا ہے ۔آپ کا خاندان ایک علمی خاندان سمجھا جاتا تھا جو افغانستان کے شہر غزنی کے دو محلوں ہجویر اور جلاب میں آباد تھا۔ اس لئے آپ علی بن عثمان بن علی الجلابی الہجویری ‘غزنوی کہلاتے ہیں ۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری علیہ الرحمہ کے حسن اخلاق اور مزاج کریمانہ اورنگاہ فیض کے باعث جو خوش قسمت لوگ آپ علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوئے،وہ نہ صرف خود ،تادم واپسیں،دامن مصطفے تھامتے ہوئے ”شجرِ اسلام“سے وابستہ اور اُس پہ قائم رہے،بلکہ ان کی نسلیں بھی تقریباََ ساڑھے نوسو سال گزرنے کے باوجود اسلام پر قائم ودائم ہیں۔ایسا کیوں نہ ہوتا….کہ آپ علیہ الرحمہ ایک ایسے مردکامل،صوفی با صفائ،درویش اور بزرگ تھے،جن کے پاس نہ تو کوئی خزانہ تھا ،نہ سپاہ….نہ دنیاوی وسائل اور نہ ہی جاہ وحشمت!کہ جس سے لوگ مرغوب ہو کرآپ کے پاس آتے۔بس آپ اپنے” مصلی “پربیٹھے ہوئے ہمہ وقت اپنے حقیقی خالق ومالک کی یاد میں مصروف رہتے تھے۔اور ،ریاکاری سے پاک ،اخلاص کے ساتھ کی جا نے والی عبادت وریاضت کی وجہ سے ربِ قدوس کے انوار وتجلیا ت کے نزول کے باعث،اللہ رب العزت نے آپؒ کو وہ شان عطا فرمائی کہ لوگ آپ علیہ الرحمہ کے پاس کھچے کھچے آتے اور آپ کے نورانیت سے بھرپور چہرہءانور کو دیکھ کر ایمان کی دولت سے مالا مال ہوجاتے تھے۔
آپ کی نگاہِ فیض کا اظہارخواجگانِ چشت کی آنکھوں کی ٹھنڈک غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے بھی فرمایا ۔جب ایک بار خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ لاہور تشریف لائے اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری علیہ الرحمہ کے مزارِ اقدس پر حاضری دی اور ایک حجرہ میں چالیس دن کا چلہ کاٹا اور عبادت وریاضت میں مصروف رہے،اس دوران حضور داتا علیہ الرحمہ نے جو فیوض برکات کی بارش آپ پرکی ،اس کا اندازہ خواجہ غریب نواز ہی لگا سکتے ہیں۔جب خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ چلہ سے فارغ ہو کر رخصت ہونے لگے تو بے ساختہ خواجہ غریب نوازکی زبان مبارک پر داتا علی ہجویری علیہ الرحمہ کیلئے بطورِ خاص یہ شعر جاری ہواکہ
گنج بخش فیض عالم مظہرِ نور خدا
نا قصاں را پیرِکامل کاملاںرارہنما
اس مرد خدا کی زبان مبارک سے نکلا ہوا یہ شعر اس قدر زبان زدخاص وعام ہوا کہ کہ جس کی گونج چہار سو پھیل گئی۔اور لوگ آپ علیہ الرحمہ کے آستانہ سے فیض پانے لگے۔
حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ علم ومعرفت کے ہزاروں دیئے جلاکر…. آخر کار ۱۹صفر ۴۶۵ھ،۱۰۸۷ءکووصال فرما گئے۔آپ علیہ الرحمہ کا سالانہ عرس مقدس ۱۹صفر کو انتہائی عقیدت واحترام اور شایان شان طریقے سے منایا جاتا ہے جس میں نہ بیرون ممالک سے بھی آپ علیہ الرحمہ کے عقیدت مندوں کی کثیر تعداد شرکت کرنے کا شرف حاصل کرتی ہے۔اور فیض پاتی ہے۔
آپ کا مرجع خلائق لاہور میں ہے۔