- راجیو پارک کھجوری میں فیضان اولیا کانفرنس و سالانہ عرس ساجدی کا انعقاد
- جرمنی،ملیشیا ودیگر ممالک کے مشائخ نقشبندیہ کی شرکت
نئی دہلی(محمد طیب رضا)
دربار اہل سنت و جملہ عاشقا ن اولیا کھجوری کی جانب سے راجیو پارک کھجوری میں فیضان اولیا کانفرنس و سالانہ عرس ساجدی کا انعقاد کیا گیا جس کی سرپرستی و صدارت دربار اہل سنت کے مولانا سید جاوید علی نقشبندی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض قاری محمد طاہر اشرفی نے انجام دئے۔مہمانان خصوصی کی حیثیت سے شیخ اشرف آفندی(جرمنی)،شیخ اسماعیل قاسم(ملیشیا)و دیگر ممالک کے مشائخ نقشبندیہ نے شرکت کی اور صوفیا کی تعلیمات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اگر دنیا میں امن و آشتی کی راہ ہموار کرنا ہے تواولیائے کرام اور صوفیان عظام کے مشن کو عام کرنا ہوگا۔اجلاس کا آغاز قار ی امانت رسول کی تلاوت و نعت سے ہوا۔منظوم نذرانہ عقیدت فرحان برکاتی،قاسم شمسی،مولانا حجۃ الاسلام،یوسف ہاتف،قاری راشد رضا وغیرہ نے پیش کیا۔آل انڈیا تنظیم علمائے اسلام کے قومی صدر مولانا اشفاق حسین قادری نے ایما ن وعقیدہ کے تحفظ اور اور صلاح کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہاکہ دور حاضر میں ایمان کو بچانا سب سے نازک مسئلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے برزگوں کی تعلیمات وارشادات پر سختی سے کاربند رہنا چاہئے اور صحابہ واہل بیت کرام دونوں کی یکسان تعظیم ومحبت کرنی چاہئے۔مولانا سید جاوید علی نقشبندی نے کہاکہ میرے والد محترم حضرت مولانا سید ساجد علی نقشبندی علیہ الرحمہ نے کبھی بھی اپنے بچوں کے لیے فکر مند نہ ہوئے،کہتے تھے روزق دینے والا اللہ ہے،ہمیں اس کا کام کرنا ہے وہ ہمارا کام کرے گا،اور غیب سے روزی مہیا کرے گا۔انہوں نے کہا کہ وہ عالم بے بدل تھے،جفا کشی ان کاشیوہ تھی،شب بیداری ان کے خمیر میں شامل تھا،ملک کے غریب اور دور دراز علاقوں کاسفر کرکے دین کاکام کیا،آج اللہ تعالی ان کی دعاؤں کی برکت سے ہمیں عزت دے رہاہے،اور جو کچھ مجھ سے بن پڑرہا ہے دین اور قوم کی خدمت کر رہاہوں۔مولانا ظفر الدین برکاتی،ایڈیٹر ماہنامہ کنز الایمان نے مختصر طریقے سے تحریری طور پر حضرت سید ساجد علی میاں کی روحانی شخصیت اور خدمات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ دہلی کی قیمی صوفی روایات کے پاسدار وعلمبر دار تھے۔ مولاناڈاکٹر غلام رسول دہلوی نے پروگرام کی تفصیلات سے مشائخین جرمنی وتنزانیہ کو آگا ہ کیااور انہیں بتا یاکہ کس طرح اہل ہند علما وصلحا سے محبت وعقیدت رکھتے ہیں۔ صوفی اجمل نظامی خادم درگاہ محبوب الٰہی نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ نے،مشائخین کی انگر یزی سے اردو میں کامیابی سے آسان زبان میں ترجمانی کی۔مشہور اسلامی اسکالر مولانا مقبول ا حمد سالک مصباحی(بانی ومہتمم جامعہ خواجہ قطب الدین بختیا رکاکی)نے مجمع کے انتشار اور عوام کی بے توجہی کا شکوہ کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا مزاج بن گیا ہے کہ ہم رسمی طور پر لاکھوں روپے صرف کرکے جلسے کرتے ہیں اور رسمی طور پر جلسوں میں آتے بھی ہیں اور جب مرضی ہوئی چلے جاتے ہیں،اپنے مشائخ کی تکلیفوں کابھی خیال نہیں کرتے جو دور ودراز سے چل کر آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جلسوں کو بامعنی بنانے کی ضرورت ہے،وہاں سے پیغامات نشر ہونا چاہیے،اور لاکھوں روپے جو خرچ کیے جاتے ہیں اس کا حاصل ملنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ علمائے کرام نائبین مصطفیٰ ہیں ان کاادب بھی اسی طرح کرنا چاہیے جس طرح صحابہ کرام اپنے دورمیں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا کرتے تھے۔مولانا نے حضرت سید ساجد علی نقشبندی نے دین کی نشرو اشاعت کے لیے بے پناہ مشقتیں برداشت کیں،۵۳سالوں تک مسلسل سرکار غریب نواز کے دربار میں عشرہ محرم الحرم میں خطاب کیا ور کبھی دست سوال دراز نہیں کیا،اور نہ نذرانے کے لیے زبان کھولی،یہ ان کاغایت تقویٰ اور خلوص تھا۔ان کے اس خلوص کا تقاضا ہے کہ ہم پوری سنجیدگی سے ان کے سالانہ عرس میں شرکت کے اس کو بامقصد بنائیں۔ مفتی تنظیف رضا نے بھی خطاب کیا۔اجلاس میں مولانا نعیم الدین مصباحی،مولانا توصیف امجدی،مولانا عابد شمسی،مولانا غلام محمد،مولانا عبدالواحد قادری،مولانا شعبان رضا،قاری صغیر احمد،قاری جمیل احمد،شری رام کالونی کے نومنتخب کونسلر عامل ملک،معروف شاعر شرف نانپاروی کے علاوہ بڑی تعداد میں ائمہ،اساتذہ اور معتقدین موجود رہے۔مولانا سید کاشف علی،سید واصف علی،محمد حسینی،عرفان اشرفی وغیرہ نے انتظام و انصرام کی ذمہ داری نبھائی۔صلوۃ و سلام اور دعا پر کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔