بلرام پور

صوفیانہ تعلیمات کا فروغ وقت کی اہم ضرورت: مولانا ابواشرف ذیشان

اترولہ: 2 ستمبر

تصوف اور صوفیاءکرام کی بقائے باہم ،قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تعلیمات اس وقت ہماری اشد ضرورت ہے۔آج ہندوستانی معاشرہ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی درکار ہے صوفیا کا کردار و تعلیمات اس کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔تصوف کے ابتدائی دور میں جو چند اہم کتابیں تصنیف کی گئیں ان میں فتوحات مکیہ ،عوارف المعارف اور کشف المحجوب ہیں جن میں سے دو اہم کتابیں ہندوستان سے باہر اور ایک کتاب کشف المحجوب اس وقت کے ہندوستان کے شہر لاہور میں لکھی گئی جو تصوف کے میدان میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ۔اس کے علاوہ حافظ شیرازی ،جامعی ،سعدی اور رومی علیہم الرحمہ جیسے صوفی شعراء نے تصوف و روحانیت سے پُر اشعار کے ذریعہ عوام کے دلوں فتح کیا۔ان خیالات کا اظہار مسلم اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن آف انڈیا اترپردیش کے نگراں حضرت علامہ مولانا ابو اشرف ذیشان صاحب لکھنؤ نے اترولہ ضلع بلرامپور میں منعقد ایک اہم نشست میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوفیا نے ملوکیت کے دور میں اسلامی مساوات کو فروغ دیا اور شیخ شرف الدین پانی پتی نے شرفا اور ارزال کی تقسیم کے خلاف مساوات کے نظریہ کو اپنے کردار و عمل سے عام کیا۔ حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ہر قوم کا اپنا راستہ اور اسکا اپنا قبلہ ہے۔صوفیہ کا مذہب عشق خدا ہے۔ غالب، حالی، فیض احمد فیض اور صوفی شاعر محمد افضل جن کا تخلص گوپال تھا نے اپنی شاعری میں اسی عشق پر زور دیا ہے اور مسجد و کعبہ کوعشق کا دیار بتایا ہے۔ عصر حاضر میں آپسی خوشگوار تعلقات کے لئے شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کا یہ خط کتنی اہمیت رکھتا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ”اس تاریک دنیا میں قلم، زبان،مال اور جاہ سے جہاں تک ممکن ہو محتاجوں کو راحت پہنچاؤ،صوم و صلاةو نوافل اپنی جگہ پر اچھی ضرور ہیں ، لیکن دلوں کو راحت پہنچانے سے زیادہ سودمند نہیں۔“نیز اسی سلسلے میں خلیفہ طاہرملت حضرت مفتی محمد اسرار احمد فیضی واحدی صاحب قبلہ صدر رضا اکیڈمی ضلع گونڈہ نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ خانقاہیں اور درگاہیں علم کا مرکز ہوا کرتی تھیں جو کام آج یونیورسٹیز، کالجز اور اسکولس کر رہے ہیں وہ کام پہلے خانقاہیں کیا کرتی تھیں۔ اور آج بھی کر رہی ہیں۔حضرت نظام الدین اولیاء کے مدرسہ میں اسی شرط پر داخلہ لیا جاتا تھا کہ طالب علم کبھی ناغہ نہیں کرے گا۔ تیرہویں صدی عیسوی سے انیسوی صدی عیسوی تک صوفیہ نے جو علمی کام کیا آج بھی ان سے لائبریریاں مخطوطات کی شکل میں بھری پڑی ہیں۔یہ صوفیہ کی کرامات ہی ہیں کہ دوسروں کی مذہبی کتاب کا حصہ صوفیہ کے اشعار بنے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے کو ایک بار پھر اسی تصوف کی ضرورت ہے اس لئے تصوف کو پڑھنا ، سمجھنا اور صوفیا کی تعلیمات پر عمل کرناسماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔ ان کے علاوہ حضرت مولانا محمد قمرانجم قادری فیضی ایڈیٹر مجلہ جام میر بلگرام شریف نے کہا کہ موجودہ حالات میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی ملک کی ضرورت ہے ، خانقاہوں کی شناخت پہلے لائبریری سے ہوتی تھی لیکن عصر حاضر میں بعض خانقاہوں کا کردار بدل گیا ہے ۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے