- موجودہ حالات میں سیرت طیبہ کو عام کرنے کی ضرورت۔ مولانا ممشاد پاشاہ کا خطاب
حیدرآباد: 2ستمبر (راست)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھی رشتہ ازدواج صرف نکاح کی خاطر نہیں تھا بلکہ اس میں بے شمار دینی، تعلیمی اور دیگر مصلحتیں اور حکمتیں پوشیدہ تھیں،اور ان سب کے لئے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجازت خاص تھی، ان میں ایک ظاہری حکمت یہ بھی تھی کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایک سخت ترین ناتراشیدہ قوم میں مبعوث کئے گئے تھے جن کی معاشرتی زندگی غیر منظم تھی، حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر اس قوم کی تربیت تھی اور انکے گھروں تک اسلامی قوانین و تعلیم پہنچانے کاذریعہ یہی امہات المؤمنین تھیں، امہات المؤمنین ہی دوسری مسلمان خواتین کی تعلیم کا ذریعہ بنیں۔ ان خیالات کا اظہار نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ تمام مذاہب عالم میں خواہ وہ الہامی ہوں یا غیر الہامی ان میں کثرت ازدواج ہمیشہ سے رائج ہے،اس کو صرف حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنا محض جہالت،کوتاہ عقلی اور تنگ نظری ہے،یہ دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے بغض و عناد ہے کہ ایسی باتوں کی تشہیر کرتے ہوئے اسلام کو بدنام اور مسلمانوں کی دل آزادی کرنا ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نفسانی خواہشات کی وجہ سے 13نکاح نہیں فرمائے بلکہ اس میں حکمت اور مصلحت کچھ اور ہی تقاضہ کر رہی تھی اور وہ یہ ہے کہ اس زمانے میں اسلامی کرنوں سے زمین عرب کو روشن کرنے کے لیے تعلقات کی وسعت اور مختلف خاندانوں اور بااثر قبائل کا تعاون ایک بنیادی ضرورت تھی اسی لیے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان قریش کے اونچے گھرانوں کی چھ عورتوں سے نکاح فرمایا اور پھر عرب کے مختلف قبائل کی چار عورتوں سے نکاح فرمایا اور عرب کے علاوہ خاندان بنی اسرائیل کی ایک شریف النسب شہزادی سے نکاح فرمایا تاکہ اہل عرب کا خصوصی تعاون آپ کے ساتھ ہو اور پورا خطہ عرب اسلام کی خوشبو سے معطر ہو جائے۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد نکاح کے حوالے سے گفتگو کرنے والوں کو صرف اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ کسی زوجہ نے اس عمل پر کبھی اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی شکوہ کیا،یہ بھی حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کثیرہ میں سے ایک معجزہ ہے۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کے حقوق بہترین طریقہ سے ادا فرمائے ہیں اور جتنے نکاح فرمائے ہیں یا تو حکمتاً ہیں یا بحکم رب ہیں۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا مطالعہ کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علی وسلم نے اپنی حیات ظاہری کے 25سال تجرد اور پاکدامنی کے عالم میں گزارے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت، دیانت اورشرافت سے متاثر ہوکر ایک بیوہ خاتون خدیجہ رضی اللہ عنہا نے پیغام نکاح دیاتو ان سے نکاح کیا اور اپناپوراعالم شباب گزارا،اس کے بعد بحکم الٰہی تعلیمی،تشریعی،معاشرتی اورسیاسی مصالح کے پیش نظر متعددنکاح فرمائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ نکاح سن کہو لت میں ہوئیں جب کہ انسانی اعضاء وجوارح کمزور ہوتے ہیں۔کوئی بھی نکاح ایسا نہیں ہے جس نے اسلامی انقلاب کے لئے راہ ہموار کرنے میں کوئی مدد نہ کی ہو۔ اس تفصیل سے دشمنان اسلام کے تعددازدواج سے متعلق اعتراضات کی قلعی کھل جاتی ہے جوانی کی مدت آپ نے نہایت پاکدامنی اورکمال تقویٰ سے گزاری ہے جس کی شہادت اغیار نے بھی دی۔ اسی رشتہ ازدواج کے سبب متعدد قبائل حلقہ بگوش اسلام ہوئے،صدیوں کی عداوتیں کافور ہوئیں،ان گنت رسوم ورواج کا خاتمہ ہوا اورامت کے نصف حصہ کے لئے خصوصا اورپوری امت مسلمہ کے لئے عموما معلمہ، مربیہ اورخواتین تیار کرنے کا راستہ ہموار ہو اور اسلام کے جاں نثارتیار ہوئے۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت کے ہر ایک پہلو کو محفوظ کرنے میں صحابہ کرام بالخصوص اصحاب صفہ نے اہم کردار ادا کیاتو عورتوں میں اس کام کے لئے باضابطہ ایک جماعت کی ضرورت تھی،اس کام کی تکمیل کے لئے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد فرمائے اور ازواج مطہرات کو حکماً ارشاد فرمایا تھا کہ ہر اس بات کومحفوظ کریں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ جو بہت ذہین اور فہیم تھیں، حضوراقدس صلی اللہ علی وسلم نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی۔حضرت زید بن حارثہ ؓ سے طلاق کے بعد اپنی پھوپھی زاد ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش ؓ سے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح فرماکر یہ قاعدہ واضح فرمایا کہ متنبی کی بیوی،بہو نہیں ہوتی صرف حقیقی بیٹے کی بیوی ہی بہو ہوتی ہے۔ ام المومنین سیدہ جویریہ بنت حارث ؓ سے نکاح فرمایا تو مسلمانوں نے اس قبیلے کے تمام قیدیوں کو آزاد کیا نتیجتاً قبیلہ بنی مصطلق کے تمام افراد داخل اسلام ہوگئے۔بعض خواتین سے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح اس لئے فرمایا کہ ان کا کوئی سرپرست نہیں تھا جو ان کے نان و نفقہ کا انتظام کرتا اسی لئے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی تعلیم کے لئے یہ نکاح فرمائے کہ لاوارث بیواؤں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ بعض خواتین سے نکاح ان کے مرتبے اور وقار کو برقرار رکھنے کے لئے فرمائے۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ شرپسند و فتنہ پرور لوگ من گھڑت پروپگنڈہ اور منافرت پہ مبنی مہم چلاتے ہیں،اس مقصد کئے لئے وہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ و
س
لم کی شان اقدس واعلیٰ میں مختلف طریقوں سے گستاخی کی جسارت کرکے مسلمانوں کو مشتعل کرتے ہیں اور ان کا گود لیا ہوا میڈیا مسلمانوں کو جنگ جو قوم کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ان فتنہ پرور وں نے پاک سیرت نبوی کے جس حصہ کو سب سے زیادہ ہرزہ سرائی کا ہدف بنایا ہے وہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح ہیں۔علماء کرام، مشائخ عظام و مسلم دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ ان دریدہ دہن ناپاک تقریروں و تحریروں کے جواب میں تحریر،تقریر، جلسوں اور سمینار کے ذریعہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت کا حقیقی رخ پیش کریں۔