- سیدنا امام زین العابدینؓ خوف و خشیت اور تقویٰ و للہیت میں اسوۂ کاملہ
حیدرآباد 19اگسٹ(راست) اہل بیت کے ائمہ باصفا میں سے ایک شخصیت مبارک سیدناامام زین العابدین ؓ کی ہے جواہل سنت کے جلیل القدر او رعالی مرتبت بزرگ ہیں۔میدان کربلا کی طرف جانے والے قافلہ حسینی میں شامل لیکن بیمار تھے،سادات حسینی آپ ہی کی نسل مبارک سے ہیں۔سیدناامام زین العابدین ؓ خاندان بنو ہاشم کے فقہاء وعابدین میں سے تھے، زہد وتقویٰ اور عبادت سمیت انسان کی تمام خوبیوں اور اعلیٰ صفات و کمالات کو دیکھا جائے تو وہ آپؓ میں واضح طور پر موجود تھیں۔ ان خیالات کا اظہار نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ سیدناامام زین العابدین ؓ ؓ ائمہ اہل بیت میں چوتھے امام ہدیٰ ہیں،سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کے پوتے،سیدنا امام حسینؓ کے صاحبزادے ہیں،نام نامی علی بن حسین،کنیت ابوالحسن،ابومحمد اور ابوعبداللہ ہے۔اپنے داداسیدنا علی المرتضیٰؓ کے ہم شبیہ تھے،دو سال اپنے دادا سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کی پرورش میں رہے،دس سال اپنے تایا سیدنا امام حسن المجتبیٰ ؓ کی تربیت میں رہے اور پھر تقریبا ً گیارہ سال والد گرامی سیدنا امام حسین الشہیدؓ کی نگرانی میں علوم و معرفت کی منازل کو طے فرماتے ہوئے وارث کمالات نبوت،ناشر اسرارولایت ہوئے، اپنے والد گرامی کے ساتھ معرکہ کربلا میں شریک تھے،اس وقت عمر شریف 23 یا 25 برس تھی، اس موقعہ پر یہ بیمار اور صاحب فراش تھے،صبر واستقامت کا بڑا مظاہرہ کیا،اس واقعہ کے بعد دنیا کی لذتوں کو ترک کردیا تھا، مصائب کو یاد کرکے اس قدر روتے کہ آنسو بالاخانہ کے پرنالہ کی راہ سے نیچے گرتے تھے، اور وہاں پر گھانس جم گئی تھی۔سیدنا امام زین العابدین ؓ نے کبار صحابہ کرام و تابعین عظام سے کسب علم کیا،اہل بیت میں سے حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ، حضرت سیدہ ام سلمہؓ، حضرت سیدہ صفیہ ؓ، اپنے والدسیدنا امام حسین الشہیدؓ،تایاسیدنا امام حسن المجتبیٰ اور عم زادرسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عبداللہ ابن عباس ؓ سے حدیث شریف کا علم حاصل کیا او راپنے داداسیدنا علی المرتضیٰ ؓ سے بھی مرسل روایت کرتے ہیں۔ بہت سارے تابعین نے سیدنا امام زین العابدین ؓ سے کسب فیض کیا۔ آپؓ روایت حدیث کرنے والوں میں آپؓ کے چار صاحبزادگان حضرات ابو جعفر محمدؓ، عمر بن علی بن حسینؓ، زید بن علی بن حسینؓ، عبداللہ بن علی بن حسینؓ، ان کے علاوہ ابن شہاب زہری، عمر وبن دینار، حکم بن عیینہ، زید بن اسلم، یحییٰ بن سعید، ہشام بن عروہ، ابوحازم، محمدبن فرات تمیمی، عاصم بن عبیداللہ بن عامر بن عمر بن خطاب اور یحییٰ بن سعید انصاری رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔سیدنا امام زین العابدین ؓ بڑے عابد وزاہد اور شب بیدار تھے، آپؓ کو سید العابدین یعنی عابدوں کا سردار کہا جاتا تھا،روزانہ ایک ہزار رکعت نفل پڑھنے کا معمول تھا اور کثرت عبادت کی وجہ سے زین العابدین یعنی عبادت گزاروں کی زینت کہا جاتا تھا۔ آپ ؓ خلوص و محبت کا پیکر تھے، بدنی عبادات کے ساتھ ساتھ مالی عبادات کا بھی غیر معمولی اہتمام کیا کرتے تھے، وہ انتہائی درجے کے سخی اور خیر کے کاموں میں خرچ کرنے والے تھے۔جب بھی آپ کہیں پر جاتے اور راستے میں کسی غریب وفقیر اور مسکین کو دیکھتے تو آپ کے قدم رک جاتے اور فوراً اس بیکس کی مدد کرتے اور بیکسوں، بے نواؤں کی دلجوئی کرنا، ان کوسہارادینا اور ان کی ضرورت پوری کرنا آپ کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔ جن کا کوئی نہیں ہوتا تھا آپ اس کی دوسروں سے بڑھ کر ڈھارس بندھاتے،اس کو اپنے در دولت پر لے آتے اور اس کی ضرورت پوری فرماتے،حضرت امام زین العابدین ؓ کا مکان مسکینوں، یتیموں اور بے نواؤں کا مرکزہوا کرتا تھا۔رات کے اندھیرے میں پشت پر روٹی لادے مساکین کو تلاش کرتے اور فرمایا کرتے کہ رات کے اندھیرے میں چھپاکرصدقہ کرنا اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے، مدینہ منورہ میں کچھ لوگ ایسے تھے کہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے معاش کا انتظام کون کرتا ہے، لیکن جب سیدنا امام زین العابدین ؓ کا وصال ہوا تو وہ اس ذریعہ معاش سے محروم ہو گئے، جو رات کو ان کے لیے سبب بنتا تھا۔94 ھ میں وصال ہوا،جنت البقیع میں اپنے تایا سیدنا امام حسن المجتبیٰ ؓ کے پہلو میں مدفون ہوئے۔آپ ؓکے گیارہ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ مولانا ممشادپاشاہ نے مزید کہا کہ سیدنا امام زین العابدین ؓ کے بیش بہا اقوال میں امت مسلمہ کے کئی مسائل کا حل موجود ہے جیسے آدمی کے لئے لوگوں کے عیوب ڈھونڈنے کے بجائے اپنے عیوب کو ڈھونڈنا ہی کافی ہے۔جھوٹ سے بچنا چاہئے چھوٹا ہو یا بڑا سنجیدہ ہو یا مزاح کے طور پر۔خبردار گنہ گاروں کی صحبت اختیار نہ کرو اور نہ ظالموں کی مدد کرو اور نہ بد کاروں سے تقرب حاصل کرو بلکہ ان کے فتنوں سے بچو ان کی قربت سے دور رہو۔صالح و شائستہ افراد کے ساتھ نشست و برخواست شائستگی کی دعوت دیتی ہے۔اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ طلب علم میں کیا فوائد ہیں تو خون بہاکر اور دریا کی موجوں میں گھس کربھی حاصل کرتے۔