اس رات نوجوان اپنا دینی لائحہ عمل مرتب کریں! مولانا ممشاد پاشاہ کا خطاب
حیدرآباد: 18 مارچ، ہماری آواز(راست)
سابقہ قوموں میں جب گناہوں کی زیادتی ہوتی تو وہ غضب الٰہی کا شکار ہوجاتیں، قرآنی گواہی کے مطابق کسی کو غرق آب کیا گیا تو کسی کو زمین میں خزانوں کے ساتھ زندہ دفن کیا گیا،کسی قوم کی صورت کو مسخ کردیا گیا تو کسی قوم کو ایک کڑک سے نیست و نابود کیا گیا۔لیکن امت مصطفی کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تصدق میں رحمت الٰہی کا حصہ یہ ملا ہے کہ جب ان کے گناہ حد سے بڑھ جاتے ہیں تو کچھ دن اور کچھ راتیں ایسی عطا کی گئیں ہیں کہ ان میں گناہ گار احساس ندامت کے ساتھ اس رحمان و رحیم کی طرف رجوع کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی سیئات کو حسنات میں بدل دیتا ہے۔ان مواقع بخشش میں سے ایک شب برات بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ ساری رحمتیں صرف اور صرف حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمان مبارک سے بہنے والے آنسو ؤں کی قدر دانی کے طور پر امت کو عطا کی گئیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی وصدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل ازجمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ ماہ شعبان کی پندرہویں شب”شب برأت“کہلاتی ہے۔ شب برات ہمارے حالات کو تبدیل کردیتی ہے اور اگرہم اس رات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی قدر کریں تو یہ ہمارے گناہوں کو ختم کرنے میں اہم کردرار ادا کرتی ہے۔مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتو رات کوقیام کرواوردن کوروزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پرنازل ہوجاتی ہے اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے‘ہے کوئی مغفرت کاطلب کرنے والاکہ میں اسے بخش دوں‘ ہے کوئی رزاق مانگنے والاکہ میں اس کورزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں‘یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتارہتاہے۔ایک اور روایت میں ہے کہ”اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے وہ یہ ہیں۔مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور،شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔سیدنا غوث اعظم ؓ فرماتے ہیں،شب برأت فیصلے، قضا، قہر و رضا، قبول و ردّ، نزدیکی و دوری، سعادت و شقاوت اور پرہیزگاری کی رات ہے۔ کوئی شخص اس میں نیک بختی حاصل کرتا ہے اور کوئی مردود ہو جاتا ہے، ایک ثواب پاتا ہے اور دوسرا ذلیل ہوتا ہے۔ ایک معزز و مکرم ہوتا ہے اور دوسرا محروم رہتا ہے۔ ایک کو اجر دیا جاتا ہے جب کہ دوسرے کو محروم کر دیا جاتا ہے۔ کتنے ہی لوگوں کا کفن دھویا جا رہا ہے اور وہ بازاروں میں مشغول ہیں! کتنی قبریں کھودی جا رہی ہیں لیکن قبر میں دفن ہونے والا اپنی بے خبری کے باعث خوشی اور غرور میں ڈوبا ہوا ہے! کتنے ہی چہرے کھلکھلا رہے ہیں حالانکہ وہ ہلاکت کے قریب ہیں! کتنے مکانوں کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے لیکن ان کا مالک موت کے قریب پہنچ چکا ہے کتنے ہی بندے رحمت کے امیدوار ہیں پس انہیں عذاب پہنچتا ہے! کتنے ہی بندے خوشخبری کی اُمید رکھتے ہیں پس وہ خسارہ پاتے ہیں! کتنے ہی بندوں کو جنت کی امید ہوتی ہے پھر ان کو دوزخ میں جانا پڑتا ہے! کتنے ہی بندے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے امیدوار ہوتے ہیں لیکن وہ جدائی کا شکار ہوتے ہیں! کتنے ہی لوگوں کو عطائے خداوندی کی امید ہوتی ہے لیکن وہ مصائب کا منہ دیکھتے ہیں، اور کتنے ہی لوگوں کو بادشاہی کی اُمید ہوتی ہے لیکن وہ ہلاک ہوتے ہیں۔امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں نوافل ادا کرنا، ذکر و اذکار کرنا، قرآن کی تلاوت کرنا، دعا و مناجات کہنا، اور اس سے منسلک دن میں روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا شب برا ت کی رحمتوں، برکتوں، اور سعادتوں کے حصول کا باعث ہیں، یہ اعمالِ خیر دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی اور نجات و سعادت کے ضامن ہیں اور بہت ہی اجر و ثواب کے موجب ہیں۔شب برأت میں ایک اور عمل ہے جو حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں تشریف لے گئے اب چونکہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شب برات میں قبرستان جائیں۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ شب برات ہمیں اس عمل کی طرف دعوت دے رہی ہے کہ اس رات محاسبہ نفس، توبہ، تجدید عہد کے ذریعے دنیاوی و اخروی فلاح کا ساماں تیارکریں۔اس رات میں ہم زیادہ سے زیادہ اللہ کی طرف رجوع ہوجائیں،توبہ و استغفار کرتے رہیں، موقع کو غنیمت جان کر خیر کے کام معلوم کرکے ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے، بارگاہ ایزدی سے نا اْمید نہ ہوں، بلکہ اپنی ندامت اور شکستہ حالی کے آنسوؤوں کے ذریعے رب کو منانے کے کوشش کریں۔