سعادتگنج،بارہ بنکی(ابوشحمہ انصاری)موت کا ایک دن مقرر ہے۔ یقیناً ہرشخص کو اس دار فانی سے جانا ہے۔ کتنے ہی دوست احباب ہماری آنکھوں کے سامنے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہ لوگ جاتے ہوئے ہمارے دلوں میں یہ احساس زندہ کرجاتے ہیں کہ آج ہماری تو کل تمہاری باری ہے۔ گزشتہ روز قصبہ انوپ گنج و سعادت گنج کے فیضان العلوم انٹر کالج کے سابق استاد ماسٹرصابرعلی صدیقی محمودآبادی کا انتقال پُرملال کسی سانحہ سے کم نہیں ہے۔ ان کی عمر تقریباً 68 سال تھی۔ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ انہوں نے فیضان العلوم انٹر کالج میں سولہ سال تدریسی خدمات انجام دیں۔ ان کے انتقال پر مدرسہ اسلامیہ فیضان العلوم انوپ گنج میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں فیضان العلوم انٹر کالج کے مینیجر الحاج سیٹھ محمدعرفان انصاری نے کہا کہ مرحوم ماسٹر صاحب ہمارے بھی استاد ہیں۔ وہ اب ہمارے درمیان تو نہیں ہیں لیکن وہ اپنے علمی و تدریسی نقوش ہمارے درمیان چھوڑ گئے ہیں۔ انہیں تمام علوم میں عبور حاصل تھا۔ وہ بچوں کی تربیت بہترین انداز میں کرتے تھے۔ اسکول کے خارج اوقات میں بھی بچوں کی مسلسل خبرگیری کرتے تھے۔ انہوں نے بچوں کو سلام کرنے اور نماز پڑھنے کی عادت ڈلوانے کا بہترین طریقہ اپنایا ہوا تھا۔ گاؤں کی ہر مسجد میں ایک مانیٹرمتعین کر رکھا تھا جو ان کے پاس پڑھنے والے تمام بچوں کی نمازوں کی حاضری لگایا کرتا تھا کہ کس بچے نے نماز پڑھی اورکس نے نہیں پڑھی۔ جوشخص نماز کی پابندی نہیں کرتا تھا اس سے بہت سخت باز پرس کیا کرتے تھے۔ ان کے رعب کا یہ عالم تھا کہ کوئی بچہ ان کے سامنے جھوٹ بولنے کی ہمت نہیں کرپاتا تھا۔ کیا بہترین استاد تھے۔ جو اس دنیا سے چلے گئے۔ آج بھی جب کبھی ہم لوگوں میں اپنے تعلیمی زمانے کی باتیں ہوتی ہیں تو مرحوم ماسٹر صاحب کا تذکرہ کئے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ الحاج ماسٹرانتظار احمد نے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک اچھے اور نیک انسان تھے۔ ان کے اخلاق سے ہرشخص متاثر ہوجایا کرتا تھا۔ میں نے انہیں حد درجہ حلیم طبع ، عاجز و منکسر ، ادب و احترام کا پیکر اور اعلیٰ و ارفع خوبیوں کا مالک پایا۔ ہر ایک کے ساتھ پیار ، خلوص اور محبت سے پیش آتے تھے۔ وہ انتہائی نرم مزاج تھے۔ لیکن تدریسی معاملے میں سخت اور اصولوں کے بہت پابند انسان تھے۔ مرحوم کا جانا بڑا اندوہناک حادثہ ہے۔ وہ فیضان العلوم میں استادالاساتذہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کا وجود ہمارے لیے نعمت عظمیٰ تھا۔ وہ علم و ادب کے باب میں تحریک کی حیثیت رکھتے تھے۔ اردو زبان سے ان کا بڑا گہرا ربط تھا۔ وہ خود اردو بولتے تھے اور طلبہ کو بھی آپس میں اردو ہی میں بات چیت کرنے پر زور دیا کرتے تھے۔ ان کی حیات کے نقوش تا دیر تابندہ رہیں گے۔ سعادت گنج کے ماسٹر اسلم صدیقی نے کہا کہ مرحوم کافی خاموش مزاج ، نرم طبیعت اور اچھے اخلاق کے حامل اور ہمہ وقت طلبہ کی فکر میں ڈوبے رہتے تھے۔ انکی خاموش گفتگو ہوا کرتی تھی۔ وہ میرے لیے نہایت قابل احترام شخصیت تھے۔ آج ان کی جدائی پر دل رنجیدہ ہے۔ اس موقع پرمنشی محمدرفیع فیضانی ، مینجر سیٹھ محمدارشاد انصاری ، محمدانوار فیضانی ، ماسٹرمحمد رفیق ، ماسٹرمحفوظ الرحمٰن ، الحاج ماسٹرمحمدالیاس ، ماسٹرمحمدعتیق ، ماسٹرمحمدراشد اور ماسٹرمحمدعرفان کی موجودگی قابل ذکر ہے۔
متعلقہ مضامین
بھارت رتن بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے131 ویں یوم پیدائش پر بھنڈارے کا انعقاد
آنجہانی ڈاکٹر راجا رام گوتم کے بیٹے مکیش کمار گوتم نے اپنی سالگرہ کے موقع پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک بہت بڑا بھنڈارا منعقد کیا بارہ بنکی(ابوشحمہ انصاری)ہر سال کی طرح اس سال بھی 14/ اپریل کو ناکہ سترکھ چوراہے پر باباصاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے جنم دن کی تقریبات منعقد کیں۔ آنجہانی […]
گاؤں میں بنا مجاہدین آزادی کا مجسمہ جو آزادی کے متوالوں کی یاد کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے
انگریزوں بھارت چھوڑو تحریک میں کود پڑے تھے پنڈ گاٶں کے لوگ۔ دیویٰ،بارہ بنکی(ابوشحمہ انصاری)پنڈ گاؤں مجاہدین آزادی کے متوالوں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کے بہت سے مجاہدین نے ملک کی آزادی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ یہاں کے بہادر بیٹوں کی جلاٸی آگ ملک سے برطانوی راج کو ختم کرنے میں مددگار ثابت […]
طالب علم کی زندگی بامقصد بننا استاد کے لیے سب سے بڑا انعام ہے
مسولی،بارہ بنکی(ابوشحمہ انصاری)استاد کی زندگی میں ایک خاص اہمیت ہے جو صرف علم دے کر انسان کو انسان بناتا ہے اور زندگی کو زندگی بخشتا ہے۔ استاد کی سب سے بڑی دولت اس کا طالب علم ہے کیونکہ اگر طالب علم کی زندگی بامقصد ہوگی تو یہی استاد کے لیے سب سے بڑا انعام ہے۔ […]

