حیدرآباد: 28 اکتوبر(راست)
ایمان کے مکمل ہونے کا دارومدارحضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہے، اطاعت کا پہلو ہمارے تمام فرائض کی ادائیگی اور جملہ مناسک میں ہے، اللہ تعالیٰ کے دین کا نفاذحضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عملی طور پر کر دکھایاکہ ہمیں ان اعمال اور افعال کو کیسے انجام دینا ہے- اطاعت سے یہ مراد ہے جیسے ایک ملازم ایک ماتحت اپنے آقا کا حکم بغیر چوں چرا کئے طوعا و کرہا مان لے۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائے۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ان خیالات کا اظہار نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن باتوں کو کرنے کا حکم دیا ہے ان پر عمل کرنا اور جن سے منع فرمایا ان سے رک جانااللہ ورسول کی اطاعت کہلاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا،اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت چھوڑدی وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس (عذاب سے بچنے کی) کوئی حجت نہ ہو گی، اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت کا پٹا نہ تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔اللہ تعالیٰ نے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا اورا س پر ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مجھ پر اِیمان لایااورمیری اطاعت کی اور پھر ہجرت کی میں اسے جنت کے کنارے اور وسط میں ایک ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں تو جو یہ کام کرے اور نہ تو خیر کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دے اور نہ ہی برائی سے بھاگنے کا کوئی موقع گنوائے تو(یہی اس کے لئے کافی ہے) وہ جہاں چاہے مرے۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اس دین کی مثال جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرما کر مبعوث فرمایا ہے اس آدمی کی طرح ہے کہ جو اپنی قوم سے آکر کہے اے قوم میں نے اپنی آنکھوں سے دشمن کا ایک لشکر دیکھا ہے اور میں تم کو واضح طور پر ڈراتا ہوں تو تم اپنے آپ کو دشمن سے بچاؤ اور اس کی قوم میں سے ایک جماعت نے اس کی اطاعت کرلی اور شام ہوتے ہی اس مہلت کی بناء پر بھاگ گئی اور ایک گروہ نے اس کو جھٹلایا اور وہ صبح تک اسی جگہ پر رہے تو صبح ہوتے ہی دشمن کے لشکر نے ان پر حملہ کردیا اور وہ ہلاک ہو گئے اور ان کو جڑ سے اکھیڑ دیا یہی مثال ہے جو میری اطاعت کرتا ہے اور میں جو دین حق لے کر آیا ہوں اس کی اتباع کرتا ہے اور مثال ان لوگوں کی جو میری نافرمانی کرتے ہیں اور جو دین حق لے کر آیا ہوں اسے جھٹلاتے ہیں۔ہر مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اختیار کرے،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے اللہ والوں سے سچی وابستگی اختیار کریں یہ سیرت نبوی کے عملی مبلغ ہوتے ہیں،جب بندہ ان کو نیکیاں کرتے اور گناہوں سے بچتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کی ذات بھی اطاعت کی طرف مائل ہوتی ہے۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بے شمار دنیوی واخروی فوائد ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں کہ تھوڑے مال پر قناعت عطا کردی جاتی ہے، لوگوں کے مال سے بے نیاز کردیا جاتا ہے، صبر وشکر کی دولت عطا کردی جاتی ہے، عزت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی جاتی ہے، خاتمہ رحمت الٰہی سے بالخیر ہوگا، قبر کے سوالات میں آسانی ہوگی، بروزقیامت حساب میں بھی آسانی ہوگی، حشر کی تکلیفوں سے محفوظ رہے گا،عذاب الٰہی سے بھی محفوظ رہے گا، جنت میں داخلہ نصیب ہوگا اس کے علاوہ اوربھی بھلائیاں عطا کی جاتی ہیں۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اختیار کرنے کے بے شمار بھلائیاں ہیں وہیں نافرمانی کی ہلاکتیں بھی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پرسخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں، اُس سے باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہمارے ایمان کا مرکز و محور اور حقیقی بنیاد ہے،ہماری بقاء اور ترقی کا راز اس بات پر منحصر ہے کہ ہم حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کس قدر اختیار کرتے ہیں،قرآن حکیم بار بار ہمیں اس جانب متوجہ کررہا ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی حقیقتا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے استحکام اور غلامی کے بغیر ہمیں نہ تو دنیا میں کوئی عزت و سرفرازی نصیب ہوسکتی ہے اور نہ ہی آخرت میں سرخروئی حاصل ہوسکتی ہے۔