حیدرآباد 21 اکتوبر(راست)
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں اپنے عظمت و شان والے محبوب کی امت میں پیدا فرمایا، اس کا ہم کتنا شکر ادا کریں کم ہیں،اس احسان کا تقاضہ یہ ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کو جانیں اور ان کو ادا کرنے کا پورا اہتمام کریں، حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے یہی کافی ہے کہ ان کو جانے اور ادا کئے بغیر نہ تو ہمارے ایمان و اعمال میں کوئی لطف پیدا ہوگا اورنہ ہی دونوں جہاں میں کوئی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اپنے محبوب کو فرمایا: بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والااور ڈر سنانے والا بنا کربھیجا تاکہ(اے لوگو!)تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرو۔ اس آیت مبارکہ میں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان،مقام و منصب،امت پر لازم حقوق اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و عبادت کا بیان ہوا ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے نبی!ہم نے تمہیں امت کے اعمال پر گواہ،اہلِ ایمان و اطاعت کو خوشخبری دینے اور کافر و نافرمان کو اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عذاب کا ڈر سنانے والابنا کر بھیجا ہے تاکہ اے لوگو!تم اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول پر ایمان لاؤاور رسول کی نصرت و حمایت اور تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرو۔اس آیت مبارکہ کو امت پر حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کے پہلو سے اِس آیت کریمہ کو دیکھا جائے تو اس میں اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے تین حقوق بیان کئے ہیں، پہلاحق ایمان کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت پر ایمان رکھنا فرض ہے اور ایسے ہی ہر اس چیز کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے جو حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں،جو یہ ایمان نہ رکھے وہ مسلمان ہی رہے گا۔ دوسرحق نصرت و حمایت یعنی اللہ تعالیٰ نے روز میثاق اپنے تمام انبیاء و مرسلین علیہم السلام سے اپنے محبوب حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و مدد کا وعدہ لیا تھا اور ہمیں بھی حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت وحمایت کا حکم دیا ہے۔صحابہ کرا م ؓ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت و نصرت میں جان، مال، وطن رشتہ دار قربان کیا ہے، اس زمانہ میں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت، آپ کی تعلیمات و دین کی بقاء و ترویج کی کوشش اسی نصرت و حمایت میں داخل اور مسلمانوں پر لازم ہے۔ اورتیسراحق حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر، یہ ایک انتہائی اہم حق ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ درجے کی تعظیم و توقیر دل و جان، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے کی جائے بلکہ آپ سے نسبت وتعلق رکھنے والی ہر چیزکا ادب و احترام کیا جائے۔تعظیم و توقیر میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی زبان و بدن اور اقوال و افعال میں امورِ تعظیم کو ملحوظ رکھے جیسے نام ِ مبارک سنے تو درود پڑھے،اسی ادب و تعظیم کا ایک نہایت اہم تقاضا یہ ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخوں اور بے ادبوں کو اپنے جانی دشمن سے بڑھ کر ناپسند کرے، ایسوں کی صحبت سے بچے اور اگر کسی کو بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ادنیٰ سی گستاخی کا مرتکب دیکھے اپنی زندگیوں سے ہی نہیں بلکہ اس کو اپنے دل و دماغ سے نکال پھینکے۔ان حقوق کے ساتھ محدثین و محققین نے اپنی تصانیف میں حضوراقد س صلی اللہ علیہ وسلم کے مزید حقوق بڑی تفصیل سے بیان کئے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع یعنی حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرناہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکم ِ خداوندی ہے۔اسی لئے کتب ِ احادیث و سیرت میں صرف فرائض و واجبات کا بیان ہی نہیں بلکہ سنن و مستحبات اور آداب ومعاملات و معاشرت کا بھی پورا پورا بیان ملتا ہے۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرحکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے، جس بات کاحکم ہو ا س پر عمل پیرا ہوجائیں، جس چیز کا فیصلہ فرمادیں اس کو قبول کریں اور جس چیز سے روک دیں اس سے خود کو روک لیں۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کہ ہم دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کرحضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت کریں اس لئے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت روح ِ ایمان، جانِ ایمان اور اصل ِ ایمان ہے۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک کرنا بھی امتی کے لئے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنا، تعریف و توصیف، نعت و منقبت، نشر ِ فضائل و کمالات، ذکرِ سیرت وسنن و احوال وخصائل و شمائل ِ اور بیانِ حسن و جمال کو دل و جان سے پسند بھی کریں اوراِن اذکار ِ مبارکہ سے اپنی مجلسوں کو آراستہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا معمول بھی بنالیں۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی؛ مگر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس نے میرا انکار کیا، پوچھاگیا،یارسول اللہ! انکارکرنے والا کون ہے؟، فرمایا،جس نے میری اطاعت کی وہ (امتی) جنت میں داخل ہوگا، اورجس نے میر
ی
نافرمانی کی اس نے میرا انکار کیا۔معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و اتباع اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، مغفرت، اوردخولِ جنت کاذریعہ ہے، اور اِن چیزوں کا حصول آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حقوق کو اداکیے بغیر ممکن نہیں، اس لیے دارین کی سرخروئی حاصل کرنے کے لیے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل طور پر اداکرنا لازم اورضروری ہے۔