ناصر رضا–جی ہاں ناصر رضا–نغمہ سرا— مداح شاہ ہدیٰ–بلبل باغ رضا علماء ومشائخ کے محبوب نظر–دوست واحباب کے منظور نظر–بغیر پر کے ملک بھر میں پرواز کرنے والے طائر پرواز – -جادوئی آواز وانداز کے پیکر–سادہ مزاج —پرلطف —پر اثر— بزم احباب کے گل تر— جی ہاں ناصر رضا آہ ناصر رضا“
آج سےکوئی سات آٹھ سال پہلے ملاقات ہوئی، یوں تو آئے دن ایک اسٹیج پر انیک خطباءاورشعراء سے ملاقات ہوتی رہتی ہے، لیکن اب وہ خلوص کہاں محبت کہاں آئے ملے اور چل دیے اس برقی دور میں جہاں ظاہری دوریاں ختم ہوئی ہیں وہیں دلوں پرغیریت اجنبیت اور عصبیت خود پسندی نمائش انانیت کا منحوس پردہ پڑ چکا ہے الا ماشاء ﷲ ہاں انہیں کچھ لوگوں میں سے ایک ناصر میاں تھے کہ پہلی ہی ملاقات میں ان کا جادو چل گیا محبتوں کا سلسلہ دراز ہوا اور پھر متعدد دینی مذہبی تقاریب میں ملاقات کا سلسلہ چلتا رہا دوریاں ختم ہوگئیں نزدیکیاں بے باکیاں بڑھتی گئیں کبھی دہلی تو کبھی ممبئی کبھی پورنیہ تو کبھی کشنگنج وغیرہ جہاں ملے خلوص سے ملے محبت سے ملے ٹیلوفنگ رابطہ رہا کئی سال ہوگیے،ساتھ میں بہت سے سفر ہوئے طوالت سے بچتے ہوئے یہاں صرف ایک یاد گار سفر رقم کررہا ہوں، ایک چند سال ہوئے راقم گھر سےبھاگلپور ایک کانفرنس کے لیے عازم سفر ہوا گاڑی پورنیہ سے آگے نکل چکی تھی، اچانک سے ناصر میاں کا فون حضرت کہاں ہیں میں نے کہا سفر میں کہنے لگے آگے کا سفر ملتوی کریں میری عزت کا مسئلہ ہے نیپال ایک بڑے دینی اجلاس میں جانا ہے،میں نے کہا یہ کیا بات ہوئی جبکہ میں پروگرام ہی میں جارہا ہوں لیکن محترم کو کون سمجھاتا اپنی محبت کی دہائی دینے لگے-لوگ بضد ہیں خدا را میری بات مان جائیں میں ہر ممکن منع کرتا رہا کہتے ہیں نا میرا انکار بڑھتا رہا ان کا اصرار بڑھتا رہا خیر نہیں معلوم کیا ہوا، ان کی محبت اور سحر آفریں آواز وانداز نے فکر کا قبلہ موڑ دیا اور میں ہار گیا ناصر میاں جیت گیے، مجھے سمت سفر بدلنا پڑا، یقیناً یہ ان سے اٹوٹ محبت تھی لیکن زندگی کی یہ ایک بڑی غلطی بھی تھی جس پر آج بھی میں نادم ہوں اگرچہ میں نے اپنی اس غلطی کے تدارک میں بھاگلپور جلسہ کے داعی حضرت مولانا سید شاہ زاہد اشرف علیہ الرحمہ کے حضور معذرت پیش کردیا تھا، خیر ﷲ معاف کرے
ہوا یہ کہ پورنیہ پہونچا اور ناصر میاں نے ریسیو کیا،اور پھر کیا تھا ہم لوگ خوش وخرم نیپال کے اور چل دیے، جوگبنی باڈر پہونچے تو معلوم ہوا باڈر سل ہے آگے جانے کی کوئی صورت نہیں رات کا سناٹا تاریکی کا پہرہ رات بھر چکر کاٹتے رہے کوئی صورت نہ بنی آخر کار آخری پہر میں پورنیہ پہونچے قصبہ جاکر ناصر میاں کے ماموں گھر لیٹ گیے صبح ہوئی گھر لوٹے خیر جو ہوا سو ہوا ایک سبق ملا کہ عین موقع سے عہد شکنی کا یہ نتیجہ تھا ہمیں کبھی بھی کسی کے ساتھ اور کسی بھی حال میں ایسا نہیں کرنا چاہئے،
آگے چلیں! 2017میری شادی کے موقع سے جن احباب نے شریک ہو کرمیری خوشیوں کو دوبالا کیا اور مجھے اپنی محبتوں کا مقروض کیا،ان میں ناصر میاں منفرد ہیں جو مسلسل تین دن تک میلاد سے رسم رخصتی اور سسرالی ضیافت تک میرے ساتھ بنے رہے بغیر کسی تصنع کے انہوں نے سادگی کے ساتھ مہمانی کے بجائےمیزبانی کے جو فرائض انجام دیے وہ قابل رشک ہیں، آہ ان کی اس محبت کا قرض اب میں کب اور کیسے چکا پاونگا کوئی صورت نظر نہیں آتی، بس ﷲ ہی بہتر بدلہ دے،درمیان میں بھی روابط جاری رہے ملاقاتیں رہیں آخری ملاقاتوں میں محترم شباب یوسفی صاحب ہریپور کے گاوں کا جلسہ اور پھر بزرگ عالم دین حضرت مولانا الحاج مسلم شاہد رضوی علیہ الرحمہ کے چہلم میں ایک ساتھ یادگار لمحات گذرے ابھی 30جون کو فون آیا کہ حضرت آپ کے علاقے میں ہوں میں نے کہا ملاقات کریں خبر خیریت کے بعد بھابھی بچے کے بارے پوچھا کہاں ہیں کانپور یا گھر میں نے کہا گھر آخری جملہ تھا میری بھی تو شادی کروادیں میں نے کہا آپ تشریف لے آئیں تو بات کرتے ہیں،لیکن اس دن ملاقات نہ ہوسکی اس کے بعد پھر 6جولائی کو فون آیا آپ گھر پر ہیں میں نے کہا جی ہاں ناصر میاں نے کہا آج ضرورمل کر جاونگا شام کے چار بجے سورجاپور بس اسٹیشن پر عجلت میں زندگی کی آخری ملاقات ہوئی آہ کون جانتا تھا کہ بس تھوڑے دنوں میں یہ چہرہ منوں مٹی نیچے ہمیشہ کے لیے چھپ جائیگا دائمی نیند سوجائیگا اس آخری ملاقات میں بس خیر و خیریت مزاج پرسی اور مختصر حالات پر تبادلہ خیال ہوا جاتے جاتے میں نے ایک پان مسالہ جو عموماً وہ خود بھی کھاتے تھے اور اپنی ملاقاتوں میں مجھے پیش کرتے تھے میں نے بھی جلدی میں پیش کردیا،ان کو کسی ضروری کام میں جانا تھا اس لیے گھر پر تو نہ آسکے لیکن افسوس آخری دیدار کراگیے،وہ میرے مخلص تھے محترم تھے عزیز تھے گھر کے شاعر تھے، یاد ماضی عذاب ہے یارب
حیف صد حیف!!!
2اگست کو اچانک سے برادر محترم حضرت حافظ اعظم رضا (جنتا آسجہ) کا فون آیا کہ کچھ سنا آپ نے کہا نہیں لڑکھڑاتے بولے ناصر کا انتقال ہوگیا یہ سن کر حواس باختہ ہونے لگے زبان گنگ ہوگئی دل کی کیفیت عجیب سی ہوگئی شعور نے کہاخبر ہی تو ہے صدق و کذب کا احتمال بھی ہے لیکن ابھی چند ساعات نہیں گذرے تھے بڑے بھائی خطیب سیمانچل حضرت مولانا ڈاکٹر مصور رضا مصباحی اور شہنشاہ ترنم بھائی مولانا اختر پرواز پورنوی نے اس حادثہ فاجعہ کی تصدیق کرکے مجھے تسلیم کرنے پر مجبور کردیا اور پھر کیا تھا سوشل میڈیا پر اظہار غم اور آنسووں کا سیلاب آگیا، انا للہ واناالیہ رٰجعون
کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
گمان تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والاہے

محترم ناصر رضا ممبئی نوجوان معروف نعت خواں عوام وخواص میں نہایت مقبول اور حلقہ یاراں میں تو پوچھئیے ہی مت ﷲ تعالیٰ نے عزت شہرت مال ودولت حسن وجمال رعنائی زیبائی سب سے نوازا تھا
ویسے ممبئی سے منسوب تھے لیکن ان کا آبائی وطن بہار کا ضلع سمستی پور شاہ پور پٹوری تھا ممبئی میں بھی اپنا گھر مکان ہے
اور پورنیہ قصبہ آپ کا نانہیالی گاوں ہے ان کے خاندان کے مولانا سیف رضا صاحب کو میں قریب سے جانتا ہوں ابھی سال دوسال پہلے مولانا بھی مرحوم ہوگیے اور قصبہ میں ان کے نانا لوگوں کے یہاں دو سے تین بار جانا ہوا اچھے متمول زمین دار لوگ ہیں سنا ہے محترم کا بھی قصبہ میں اپنا گھر مکان بن گیا ہےقدرت نے ہر طرح کی فراوانی کشادہ قلب اعلیٰ اخلاق سے نوازا تھا اور ایسا شمع بنایا تھا کہ جہاں جاتے روشنی لٹاتے اخلاق کی خوشبو بکھیرتے اپنی کرنیں چھوڑ جاتے جو ملتا اور پیاری پیاری دلکش آواز سنتا گرویدہ ہوجاتا اچھل کود بے جا چینخ وپکار اور مروجہ گویوں سے جداگانہ صوفیانہ انداز میں حمد ونعت اور منقبت پڑھتے گنگناتے، لیکن اچانک ایسے گیے۔۔۔
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
افسوس
آج سیمانچل کے سیکڑوں علماء خطباء اور شعراء مغموم ومحزون ہیں جو ملا جن سے ملا سب نے اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور ان کی موت کا رونا رویا اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے،
خطیب اہلسنت حضرت مولانا شہنواز حسین قبلہ اتردیناجپور واعظ اہلسنت ڈاکٹر مصور رضا مصباحی شاعر اسلام مولانا عسجدرضا بنارسی شاعر اسلام مولانا اختر پرواز پورنوی حافظ اعظم رضا جنتاآسجہ محترم شباب یوسفی پورنوی نقیب اہلسنت بڑے بھائی مولانا محشر فریدی لکھنو محترم علی رضا رہبر کٹیہار محترم رمان الباری نظامی سالماری مولانا اول رضا میکش محترم شہادت رضا حبیبی پنڈالے بڑے بھائی قاری محفوظ انجم قادری محترمی مولانا خلیق ارشد رشیدی بلبل سیمانچل مولانا دلکش رضا پورنوی محترم کوثرکلیمی محترم قاری دانش رضا کانپوری شہباز بھائی دالکولہ وغیرہ نے شدید صدمے کا اظہار کیا اس نازک گھڑی میں احقر بھی مع اہل خانہ ان کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہے،
محترم ناصررضاکی ناگہانی موت کے اسباب کیا ہیں کیا یہ طبعی موت تھی یا پھر معاملہ کچھ اور تھا اس کا یقینی ادراک اب تک نہیں ہوسکا،
دعاگو ہوں ﷲ تعالیٰ عزوجل ان کے سئیات کوحسنات میں بدل دے اور غریق رحمت فرمائے لواحقین کو صبر عطا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
دعاگو
صابر رضا محب القادری نعیمی غفرلہ
۹محرم الحرام ۱۴۴۴ھ
8اگست 2022