حیدرآباد و تلنگانہ

زکوٰۃ مال کو پاکیزہ اور مال والے کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بناتی ہے

فضول خرچی سے بچنے اور میانہ روی اپنانے کی تلقین۔ مولانا ممشاد پاشاہ کا خطاب

حیدرآباد 15 اپریل (راست) زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان سے ایک اورجس کا انکارکفرہے، جو مسلمان بھی صاحب نصاب ہوگا اس کو اپنی جمع پونجی میں سے ڈھائی فی صد حصہ زکوٰۃ کے طور پر ادا کرنا فرض ہے۔لیکن مسلمانوں کی اکثریت اس کی جزئیات اور تفصیلات سے نا واقف ہے۔زکوٰۃ کو معمولی صدقہ وخیرات سمجھا جاتا ہے۔ حالاں کہ وہ ایک ایسانظم ہے، جس سے نہ صرف ایمان بلکہ اہلِ ایمان میں بھی ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔اسلام کے دیگر ارکان جیسے نمازوحج وغیرہ کے مسائل کی باریکیوں سے لوگ واقف ہیں،لیکن زکوٰۃ کو صحیح طریقے سے نہ سمجھنے کی وجہ سے یا تو لوگ صحیح طور پر اس کو ادا نہیں کرتے، یا پھر کچھ زکوٰۃ نکالتے ہی نہیں ہیں۔نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولاناسید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر زکوٰۃ کو نماز کے ساتھ ملاکر بیان کیا گیا ہے،یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک نماز کی جتنی اہمیت ہے اتنی ہی اہمیت زکوٰۃ کی بھی ہے۔زکوٰۃ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کو دیا گیا ایک ایسا معاشی نظام ہے جس کے ذریعے معاشرے میں وسائل اور دولت کی تقسیم میں جو اونچ نیچ انسانوں کی فطری کمزوریوں کی وجہ سے یا آپسی استحصال کے نتیجے میں پیدا ہوجاتی ہیں، ان کو آسانی سے دور کیا جاسکتا ہے اور سماج میں معاشی مساوات قائم کی جاسکتی ہے۔دولت کی صحیح تقسیم قائم رکھنے اور معاشرہ میں مساوی گردش کو یقینی بنانے کے مقصد سے زکاۃ فرض کی گئی، جس کا اصول ہے کہ مال داروں سے وصول کی جائے اور غریبوں کو ادا کی جائے۔ اسلام غنی اور مال دار کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنا زائد اور اضافی مال راہِ خدا میں خرچ کرکے اللہ تعالی کی رضا حاصل کرے اور اخلاقی عظمت حاصل کرے۔علاوہ ازیں، صدقات و خیرات کی خوب ترغیب دی گئی اور مختلف قسم کے کفارات اور فدیوں کی ایسی صورت تجویز کی گئی جس سے غریب افراد کی حاجت روائی کا سامان بھی پیدا ہوگیا۔ اسلام میں اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابلِ مذمت قرار دیا گیا۔ سخاوت و فیاضی بہترین صفت قرار دی گئی۔زکوٰۃ مالداروں کو گناہوں، لغزشوں، کوتاہیوں اور معصیتوں سے پاک کرتا اور ان برائیوں ومعصیتوں کا کفارہ بنتا ہے، جس کا ان سے ارتکاب ہوتارہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو جوکچھ بھی بقیہ مال ہے اس کی بربادی سے حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے، یہ اس مال کے لئے آفتوں اور حوادث سے بچاؤکی تدبیر اور امان وتحفظ کی صورت ہے۔مولاناممشاد پاشاہ نے وطن عزیز ہندوستان کے مسلمانوں کو موجودہ وقت میں درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بے شمار مسائل ہیں جس کی وجہ سے مسلم قوم کو دوسروں پر انحصار کرنے والی پسماندہ قوم میں تبدیل کردیا ہے،ان مسائل پر گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے،سب سے پہلا قدم ترجیحی بنیاد پر مسلمانوں کی مضبوط معیشت ہونی چاہئے۔موجودہ وقت میں ہماری معیشت کمزور ہونے کا اصل سبب اعتدال اور میانہ روی کا فقدان ہے۔بے اعتدالی، فضول خرچی اور اسراف آج ہمارے معاشرہ کا حصہ بن گئی ہے۔بچے کی پیدائش سے لے کر شادی خوشی غمی اور ہر کام میں فضول خرچی واسراف سے کام لیا جاتا ہے۔اور شادی کے موقع پر بے پناہ فضول خرچی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔مجبور قرضہ لے کر شادی کرتا ہے اور صاحب استطاعت ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لے فضول خرچی کرتا ہے۔انسان کے پاس کتنے ہی وسائل ہوں بہر حال یہ دولت اور وسائل ایک نہ ایک دن ختم ہو نے والے ہیں۔ایک انسان کی دانش مندی یہ ہے کہ ایک روپیہ بھی ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کرے،اسلام ہمیں فضول خرچی سے روکتا ہے۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ معاشرے کے اکثر صاحب نصاب افراد کا یہ خیال ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرے کے آخری دنوں میں ادائیگی زکوٰۃ بہتر ہے جبکہ ان کے سامنے کوئی ضرورت مند آجائے اور وہ مال زکوٰۃ کے علاوہ اپنے پاس سے اس کا تعاون کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو وہ زکوٰۃ فرض ہونے سے پہلے بھی اس کا تعاون کرسکتے ہیں۔ زکوٰۃ کے استحقاق کا تعلق ہر جائز اور مشروع ضرورت سے ہے، ضروری نہیں کہ بالکل بھوکے ننگے یا نانِ شبینہ کے محتاج کو ہی زکوٰۃ ادا کی جائے۔ اگر روزمرہ زندگی کی ضروریات کے علاوہ بھی کسی کو احتیاج ہو تو اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔اس بات کا خیال رکھا جائے کہ سادات کرام کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی،ان کی خدمت میں پاک وصاف مال بطورنذر پیش کیا جائے۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!