بنگال سیاسی گلیاروں سے

بنگال اسمبلی انتخاب: ترنمول کانگریس ہی دوبارہ اقتدار کی حقدار!

تحریر۔محمد اشفاق عالم نوری
رکن۔ مجلس علمائے اسلام مغربی بنگال شمالی کولکاتا نارائن پورزونل کمیٹی کولکاتا۔136
رابطہ نمبر۔9007124164

وطن عزیز کے جتنے نظام انسانی عقل و خرد سے مرتب ہوئے ہیں ان میں عالمی سطح پر آمریت وغیرہ کے مقابلے میں جمہوریت کو ہی بہتر تسلیم کیا گیاہے۔ جمہوری نظام بھی بعض اسباب و وجوہات کے بناپر تنقید کا نشانہ بنا رہا۔مگرپھربھی اسی کو عروج وارتقاء حاصل ہوا۔ ہندوستان کو طویل جدوجہد کے بعد یہ اعزاز حاصل ہوا اور یہاں جمہوری نظام قائم کیاگیا رفتہ رفتہ ہماراملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوری طاقت کے نام سے جانا جانے لگا نیز گذشتہ چوہتر سالہ ہندوستان کے آزادی کے اس طویل عرصہ میں اب یہ بات واضح ہوکر سامنے آگئی ہے کہ ہمارا جمہوری نظام مسلسل سازشوں اور ناپاک سیاستدانوں کے اختیار میں آچکاہے جبھی تو ہمارے ملک کے جمہوری نظام کا استحصال ہونے لگا ہے۔جب کہ اس سے قبل گرد وپیش کے جتنے ممالک ہیں،اُن کے یہاں جمہوری نظام بالخصوص جان ومال کے تحفظ کو وہ استحکام حاصل نہیں جو ہمارے ملک کوحاصل ہے۔ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ہرگزرتے وقت کے ساتھ ہمارے اکابر واسلاف کے حسین خوابوں کی یہ تعبیراوران کے خون جگرسے سینچاہوایہ سرسبزباغ”ہندوستان” تیزی کے ساتھ فسطائیت، ظالم وجابر حکمران کی طرف رواں دواں ہے،بھیڑ کے ذریعہ قتل کی وارداتوں نے تو جنگ آزادی کے خوف ناک مظالم کو بھی پس پشت ڈال دیاہے۔جسے پورا ہندستان مآب لنچنگ کے نام سے جانتے ہیں اسی ملک میں جب سے مودی حکومت قابض ہوئی واردات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا ہے اور انکی حکومت میں خصوصیت کے ساتھ بے چارے مسلمان ہی نشانے بنے ہوے ہیں جبھی تو انسانی بھیڑیے کی روپ میں مآب لنچنگ جیسی گھٹنوں کو انجام دیکر کتنے مسلمانوں کو موت کی نیند سلا چکا ہے،تو کبھی لو جہاد کے نام سے نشانہ ، تین طلاق کا معاملہ ،بابری مسجد کا قضیہ،این آر سی، سی اےاے،ہندستان کے مسلمانوں سے ہندستانی ہونے کے ثبوت، ہندوستان کے تاریخی ورثوں کے ناموں کی تبدیلی اوراب ناپاک سازشوں کے تحت قرآن کے چند آیتوں کی تبدیلی جو سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں لیکن ان سب کے باوجود مشکل حالات میں ہم نے جمہوری طرزپر بھرپور اعتماد کا ثبوت دیا ہے اوراس بات کا اعتراف کیاہے کہ یہ مستحکم جمہوریت جہاں ملک اور ریاستوں کے لئے سلامتی کی ضامن ہے، وہیں مذہبی لسانی اور تہذیبی اَقلیتوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ جمہوری نظام کے تحت انتخاب کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بار بار حکومتیں بدلتی رہتی ہیں۔ لیکن اب یہ تبدیلی نہایت ہی گھناؤنا وارداتیں اورتشدد سے بھراماحول میں ہی وجود میں آتی ہے، اور عام لوگ ووٹ کی طاقت کے ذریعہ ظالم حکومتوں کو ہٹاکر منصف حکومتوں کوکرسئ اقتدارپربٹھاتے ہیں۔

بنگال کا اسمبلی انتخاب اورموجودہ صورت حال:
جمہوریت کے اپنے تقاضے ہیں اور اس کا پہیہ چلتے رہنے کے اپنے اصول ہیں، آئین کی رو سے ہر بالغ شہری کو اس اسمبلی انتخاب میں ریاستی مفادکے لیے اپنے نمائندے چننے کا حق دیا گیا ہے، جووہ اپنے ووٹ کے ذریعے استعمال کرتا ہے۔ جب ایک حکومت اپنا وقت پورا کر لیتی ہے توعوام کونئی اسمبلی بنانے کیلئے اپنے نمائندے چننے کا موقع دیاجاتا ہے، عوام ہی وہ نمائندے چنتی ہے اورکسی ایک سیاسی پارٹی کو اس کیلئے منتخب کرتی ہے، جو جو سیاسی پارٹیاں اس وقت ریاست میں کام کر رہی ہیں ان میں سے ہر ایک کا ایک طریقہ کار ہے۔اس بناء پرسب سے پہلے ہر پارٹی کو اپنا طریقہ کار لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے جسے پارٹی کامنشور کہاجاتاہے، عوام کی اکثریت چونکہ ہر پارٹی کے منشور سے واقف نہیں ہوتی۔اسلئے پارٹیاں اور ان کے نمائندے، لوگوں کے سامنے وہ منشو رکھتے ہیں یہ کام وہ جلسے جلوسوں اور میٹنگ کے ذریعے بھی کرتے ہیں اور ڈور ٹوڈور یعنی گھر گھر جا کر بھی اپنا پیغام پہنچاتے ہیں اور لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا منشور عوام کی بہتری کیلئے دوسری پارٹیوں سے بہتر ہے اسلئے وہ ان ہی کے اراکین کو ووٹ کے ذریعہ اسمبلی میں بھیجیں۔

یہ تو تصویر کا ایک رخ تھا۔مگرمذکورہ شفاف نظام کے موجودہ انتخابی صورت حال نہایت افسوس ناک اور غیر آئینی ہے، انسانی سماج کو دو طبقات میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایک حکمراں طبقہ ہے جس میں لالچی سرمایہ دار، بدعنوان اعلیٰ افسران اور مفاد پرست سیاستداں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پسماندہ طبقات، اقلیتی سماج اور غریب عوام ہیں۔ ان دونوں طبقات کے مقاصد متضاد مختلف مسائل اور ضرورتیں الگ الگ ہیں۔ ایک کا مقصد اپنی سیاسی برتری قائم و دائم رکھنا اور دوسرے کا اسے نیست و نابود کرنا ہے۔ توایک کی ضرورت عوام کو تقسیم کرنا ہے تاکہ ان کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹائی دی جا سکےجسکی مثال سال بھرقبل پلوامہ حادثہ جوہمارے سامنے آج بھی گردش کررہا ہے عین اس وقت جبکہ پارلیمانی انتخابات سامنے تھے۔ دوسرے کی ضرورت متحد ہو کر جد و جہد کرنا ہے تاکہ بنیادی حقوق کا تحفظ ہو سکے۔جب تک ان دونوں طبقات کے مقاصد عوامی مفاد کے لیے متحد نہیں ہوں گے تب تک جبر و استحصال سے نجات نا ممکن ہے۔ معاشی استحصال اور فسطائیت کا قلع قمع کرنے کی خاطر اخوت و محبت کی بنیاد پر ایک مشترکہ جد و جہد ناگزیر ہے۔

ہمارے ووٹ کی شرعی حیثیت:
شرعی اعتبار سے ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے۔ (1) شہادت (2) سفارش (3) حقوق مشترکہ کی وکالت۔ تینوں صورتوں میں جس طرح قابل، اہل اور امانت دار آدمی کو ووٹ دینا موجب ثوابِ عظیم ہے اور اس کے ثمرات سب کو ملنے والے ہیں، اسی طرح نااہل اور خائن شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے، بری سفارش بھی اور ناجائزوکالت بھی اور اس کے تباہ کن نتائج بھی اسکے اعمال نامہ میں لکھے جائیں گے۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہ نہ بتلاؤں؟ یہ الفاظ آپ نے تین بار دہرائے ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلایئے آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا( ابھی تک آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے) اور فرمایا: سنو! جھوٹی بات کہنا اور جھوٹی گواہی دینا، پھر آپ یہی بات دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے تمنا کی کہ کاش آپ خاموش ہو جاتے۔(صحیح بخاری ومسلم)

بیہقی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا ” جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے، حالاں کہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمے کی پیروی کرے وہ خدا کی ناخوشی میں ہے جب تک اُس سے جدا نہ ہو جائے۔” اور ایک حدیث شریف میں ہے کہ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کیا وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔” (طبرانی) اسی طرح ووٹ ایک سفارش و مشورہ ہے جسے حدیث میں امانت کہاگیا ہے، اس امانت کا تقاضا یہ ہے کہ سوچ سمجھ کر کسی بھی ذاتی مفاد اور قرابت و تعلقات کا لحاظ کیے بغیر اجتماعی منفعت کو سامنے رکھ کر حق رائے دہی کا استعمال کیا جائے۔اکثر وبیشتر ایسا ہوتا ہے کہ ہم خوشامد کرنے والوں، رشوت دینے والوں اور سبز باغ دکھانے والوں کے فریب میں آجاتے ہیں اور بلا سوچے سمجھے اپنے روشن مستقبل کو اپنے ہی ہاتھوں سے داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

ماضی کااگراحتساب کیا جائے تو اظھر من الشمس ہے کہ مغربی بنگال میں بھلے ہی ترنمول کانگریس کے کیے گئے سارے وعدے کو پورا نہ کیا ہولیکن راقم الحروف کے فہم و فراست کے مطابق گزشتہ دس سالہ دور اقتدار میں انھوں نے بنگال میں امن و شانتی کو برقرار رکھا ذات پات سے بھید بھاؤ رکھتے ہوئے انہوں نے اپنے آپکو عوام کے سامنے کبھی پیش نہیں کیا ناکبھی مخالف جماعت کو دھرنا پردرشن کرنے دیا جبکہ تاناشاہی مودی حکومت میں ہندستان نوٹ بندی، تین طلاق،مآب لنچنگ، لو جہاد،گئوکشی، مسجد میں آذان پرپابندی،مسلمانوں سے ہندوستانی ہونے کی شناخت کامطالبہ،وندے ماترم نا پڑھنے پر نشانہ،بابری مسجد قضیہ ،این آر سی ،سی اےاے اور اب بی جے پی ،آر ایس ایس،بجرنگ دل اور کٹر ہندتوا کے خیام فاسد” ہندستان "کو ہندو راشٹر بنانے کا خواب جیسے معاملات میں مودی حکومت سے اگر دلارانہ مدبرانہ اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہندوستان کی دھرتی پر کوئی لیڈر ہیں تو وہ ہیں محترمہ ممتا بنرجی ( وزیر اعلی: مغربی بنگال) جنکی قیادت میں آج بھی بنگال میں امن و سکون وشانتی اور بھائی چارگی کے ساتھ یہاں کے ہندو مسلم سکھ عیسائی آپس میں اتحاد،اتفاق قائم رکھتے ہوئے زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ

انکی قیادت میں آج مغربی بنگال میں مسلم لیڈروں کی اکثریت ہے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ آج تمام آئمہ کرام اور موذنین حضرات کو مشاہرہ دیا جاتا ہے اور ناجانے مزید کتنے سہولیات کی فراہمی ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ان ساری چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے قیمتی ووٹ کا صحیح استعمال کرکے ترنمول کانگریس کو ہی دوبارہ اقتدار میں لایا جائے۔؀

تنکوں کے ساتھ کون ہے،آندھی کے ساتھ ہیں
دیدی یہاں کی شان ہے ،ہم دیدی کے ساتھ ہیں
ظالم کی کوششوں کا کوئی فائدہ نہیں
بنگال والے تو ممتا بنرجی کے ساتھ ہیں

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے