سمیرپور (خصوصی نمائندہ)
جامع مسجد سمیرپور کے خطیب و امام، مخلص خادمِ ملت، مبلغِ اہلِ سنت، حضرت مولانا الحاج عبدالغفور صاحب جیسلمیری اشرفی دامت برکاتہم نے اپنے گاؤں گھریا جیسلمیر میں لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے لئے قائم شدہ دارالعلوم کی تعلیمی و تعمیری ذمہ داریوں کی بنا پر سمیر پور کی جامع مسجد کی امامت وخطابت اور تعلیمی وتدریسی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کا فیصلہ کیا، جس کے پیش نظر مسجد کے ذمہ داران نے بادلِ ناخواستہ حضرت کا استعفیٰ قبول کیا اور ان کے اعزاز میں ایک پراثر اور پُرنور الوداعیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس یادگار موقع پر سمیرپور اور اطراف کے متعدد علمائے کرام، ائمہ مساجد، معزز شہری اور حضرت کے سیکڑوں شاگرد و عقیدت مند موجود رہے۔ تقریب میں حضرت کی دینی خدمات پر اظہارِ تحسین کرتے ہوئے کئی مقررین نے کہا کہ مولانا عبدالغفور صاحب نے سمیر پور میں بیس سالہ امامت کے دوران نہ صرف مسندِ خطابت کو فروغ دیا بلکہ دین کے ہر محاذ پر اخلاص کے ساتھ نمایاں خدمات انجام دیں۔
تقریب میں جامع مسجد کے صدر سردار خان، سابق صدر حاجی یاسین چھیپا، فقیر محمد،مدینہ مسجد کے خطیب وامام حضرت مولانا علیم الدین قادری،مولاناقائم الدین قادری، مولانا عبدالکریم انواری،مولانا محمد خمیسہ اشفاقی،مولانا طفیل احمد،مولانا عرفان صاحب،مولانا شفیع محمد خطیب وامام جامع مسجد شیو گنج،حاجی حسن صاحب،یونس چودھری، حنیف پٹھان، محبوب رنگریز، محمد اکرام خان سمیت دیگر ذمہ داران و معززین شریک ہوئے۔ شرکاء نے آپ کی علمی، اصلاحی اور تبلیغی جہتوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی شخصیت میں اخلاص، عمل اور استقامت کا حسین امتزاج ہے، جس کی جھلک ہر کام میں نظر آتی ہے۔
مولانا عبدالغفور صاحب کا دینی سفر 1985ء میں تخت گڈھ سے شروع ہوا، بعد ازاں حضرت مفتی اعظم راجستھان علامہ مفتی اشفاق حسین نعیمی علیہ الرحمہ کی ہدایت پر مختلف دینی مراکز میں خدمات انجام دیتے ہوئے جودھپور کی مسجد فیض عام کی تعمیر و تنظیم میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1992ء میں کچھ گھریلو مسائل کی وجہ سے جب آپ نے کاروبار کا ارادہ کیا تو حضرت مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کی روحانی رہنمائی نے دوبارہ دین کی طرف لوٹایا۔ تخت گڈھ واپسی کے بعد اصلاحی کتابیں تصنیف فرمائیں جو آسان ہندی زبان میں پورے ملک میں مفت تقسیم ہوئیں۔ 1999ء میں تخت گڈھ کی جامع مسجد کا تعمیری کام شروع کیا جو 2004ء میں مکمل ہوا۔ 2005ء میں پہلی بار اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی اور پھر سمیرپور تشریف لائے، جہاں جامع مسجد میں امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ تعمیراتی خدمات بھی انجام دیں۔ 2016ء میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس دوران ہر سال حج و عمرہ کی سعادتیں بھی حاصل ہوتی رہیں۔ باالآخر اپنے گھر کے قریب اپنے والدین کے ایصالِ ثواب کے لیے گھریا، جیسلمیر میں تین سے چار بیگھہ زمین وقف کرکے مسجد امیر حمزہ تعمیر کروائی، جس کا افتتاح حال ہی میں عمل میں آیا۔ اسی کے سامنے بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ایک شاندار دارالعلوم بنام "دارالعلوم چمنستان فاطمہ” کی تعمیر بھی جاری ہے۔
الوداعیہ تقریب میں حضرت کی گلپوشی، دعاؤں، تحائف اور عقیدت بھرے نذرانوں کے ساتھ رخصتی عمل میں آئی۔ نم دیدہ آنکھوں اور پُرشفقت دعاؤں کے ساتھ علم و عمل کے اس روشن چراغ کو الوداع کہا گیا، جن کی زندگی کا ہر لمحہ دین و ملت کی خدمت سے عبارت رہا۔
رپورٹ:مولانا علیم الدین قادری اشفاقی
خطیب وامام:مدینہ مسجد،سمیر پور،ضلع:پالی(راجستھان)