محمدآباد گوہنہ /مئو جب ملک میں عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون موجود ہے تو اسے مؤثر ثابت کیوں نہیں کیا جاتا یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عبادتگاہوں کے تحفظ کا قانون ہونے کے باجود بھی فرقہ پرست عناصر مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہیں جس کے نتیجے میں سنبھل میں پانچ لوگوں کی جان تک چلی گئ مذکورہ خیالات کا اظہار بہار اسٹیٹ اردو ٹیچر ایسوسی ایشن کے صدر قمر مصباحی ، بنکر لیڈران عین المظفر انصاری و جاوید اختر بھارتی نے ایک خصوصی میٹنگ میں کیا تینوں شخصیات نے کہا کہ ملک میں امن و امان قائم رکھنا سب کی ذمہ داری ہے اور مسلمان بخوبی اس ذمہ داری کو نبھا رہا ہے لیکن ملک میں زعفرانی سیاست چل رہی ہے فرقہ پرست طاقتیں ملک کے نظام کو درہم برہم کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور نچلی عدالتوں کے ججوں کے طرز عمل سے انہیں تقویت حاصل ہورہی ہے اور نچلی عدالتوں کے ججوں کو سابق چیف جسٹس چندر چوڑ کے اس فرمان سے سماعت کا راستہ مل گیا جس فرمان میں انہوں نے کہا تھا کہ 1991 کے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون سے متعلق عدالت کو جائزہ لینے کا اور تاریخی نوعیت جاننے کا اختیار حاصل ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عبادتگاہوں کے تحفظ قانون کو عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ کل مذاہب عبادت گاہیں پوری طرح محفوظ رہ سکیں ۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ جہاں آئین موجود ہو جمہوریت ہو وہاں مذہبی نفرت کی آندھی چلے اس سے ماحول بھی خراب ہوتاہے اور ملک کی شبیہ بھی خراب ہوتی ہے عبادت گاہوں کے معاملے میں نچلی عدالتوں کے ذریعے سماعت کئے جانے پر فوری روک لگائی جائے تاکہ قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہو یہی قومی مفاد میں بھی ہوگا اس کے برعکس ملک میں بدامنی کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔
