حیدرآباد و تلنگانہ مذہبی گلیاروں سے

حضرت فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی علمی و اصلاحی خدمات ناقابل فراموش

  • اعمال و عقائد کے تحفظ کی تلقین۔ مولانا ممشاد پاشاہ کا خطاب

حیدرآباد 29نومبر (راست) ہر زمانہ میں ایسی ملکوتی صفات نفوس دنیامیں پیدا ہوتے رہے ،جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے مراتب ملے ہیں کہ زمانہ ان پر فریفتہ رہا اور وہ مرجع عالم رہے ،انہیں پاک طینت،خوب سیرت،بلند ہمت ذوات قدسیہ میں ایک ذات شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی المعروف فضیلت جنگ بہادرؒ کی ہے ،اپنی ذات میں ایسے کامل تھے جن کی حیات کا ہر جز اس درجہ وسیع و بسیط تھا کہ دیکھنے والے کی فکر و نظر اس کی وسعتوں میں کھوجاتی ہے ،وہ درویش حق پرست بھی تھے اور صوفی خدا مست بھی ،اسباب و آسائش کے فقیر بھی تھے اور دولت اخلاق نبوی کے امیر بھی، شریعت کے ہادی ، طریقت کے رہبر ، مفتی نکتہ رس، مفسر بلند نظر ، محدث متبحر اور مصلح امت تھے ۔ صلحائے متقدمین کے سلسلہ کی تابناک کڑی تھے جس میں ظاہر وباطن کا ایک حسین امتزاج اور درسگاہ و خانقاہ کا ایک خوبصورت سنگم تھا ۔ ان خیالات کا اظہار نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن ، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ علماء و مشائخ اور اولیاء و صوفیائے امت نے اسلامی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لئے ہر زمانہ میں عہدساز کردار ادا کیا ہے ،انہی کی وجہ سے اسلامی اقدار آج بھی مضبوط و مستحکم ہیں ،ان میں سے ایک زمانہ جن کے علم و عمل کی نورانیت سے منور ہوا ،ولادت جن کی 4ربیع الثانی 1264ھ کو ناندیڑ ضلع کے مقام قندھار میں ہوئی، نام نامی محمد انوار اللہ رکھا گیا، کنیت ابوالبرکات ،خطابات خان بہادر، فضیلت جنگ اور القاب شیخ الاسلام ،عارف باللہ ہیں ۔مشربا چشتی اور فاروقی النسب ہیں ،انچالیسویں پشت میں سلسلہ نسب خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ابتدائی تعلیم والد ماجد حضرت قاضی ابومحمد شجاع الدین فاروقیؒ سے حاصل کی ،گیارہ سال کی عمر میں مولانا افظ امجد علی ؒ کے پاس حفظ قرآن مکمل فرمایا ۔دیگر اساتذہ میں مولانافیاض الدین اورنگ آبادیؒ ، مولانا عبدالحلیم فرنگی محلی ؒ، علامہ شیخ عبداللہ یمنی ؒ مولاناعبدالحی فرنگی محلیؒ ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپؒ کی ذات سے مذہب اہل سنت کو جو وقار بخشا عہد حاضر میں اس کی مثال نہیں ملتی،حمایت دین ،صیانت مذہب،تائید معمولات اہل سنت رد بدعات و منکرات، اصلاح فکر واعتقاد ،لسانی و قلمی جہاد،یقین محکم ،عمل پیہم ،جہد مسلسل اور ہر میدان کے صالح افراد کی تربیت سے عبارت ہے ، عشق رسالت وآل رسالت جن کا اوڑھنا بچھونا اور اتباع سنت نبوی جن کا شیوہ اور آئینہ ٔ حیات تھا۔حضرت فضیلت جنگ ؒ نے اپنی بے پناہ علمی صلاحیت ، خلوص و للہیت ، شرافت نفسی اور ملکوتی صفات کے ذریعہ تبلیغ و تحفظ دین متین کا بیڑ ااٹھایا ،آپ نے جس وادی میں قدم رکھا اس کو گل گلزار کردیا اور جب اپنا رخ جہل و ضلالت کے ظلمت کدہ کی جانب کیا اس کو بقعہ نور بنادیا ،یہی وجہ ہے کہ آپ کا فیضان علم اکناف عالم پر ابربہاراں بن کر برس رہا ہے ۔حضرت فضیلت جنگ ؒ کے تذکرہ میں اس بات کو بھی شامل کرنا ضروری ہے کہ حجاز مقدس میں آپؒ نے تین سال سے زیادہ قیام فرمایا، اور تقریبا ہر پانچ سال پر سفرِ حجاز اختیار فرماتے تاکہ اپنے پیر و مرشد حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ سے استفادہ بھی ہوسکے۔ آپ نے مصر اور بغداد کے بھی سفر اختیار کئے، اس طرح علماء حرمین و مصر و شام سے تعلقات علمیہ قائم تھے۔ ان کے ساتھ طویل صحبتیں رہیں،حضرت فضیلت جنگ ؒ نے اپنے تمام تجربوں اور صلاحیتوں سے مسلمانوں کی ہمہ جہتی اصلاح کیلئے جو قدم اٹھا یا ان کامکمل جائزہ لینے کی ضرورت ہے، آپ کارہن سہن سادہ، اصول پسندی اور سادگی، ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں تساہل سے کام نہ لینے۔ ایثار و قربانی، سخاوت، توکل، ہمدردی، دینی حمیت کے واقعات ایسے تھے کہ سلف صالحین، اور صحابہ کرام کی زندگیاں یاد آجاتی ہیں۔حضرت فضیلت جنگ ؒ بیک وقت مملکت آصفیہ کے صدر الصدور اور تین آصفجاہی پشتوں کے اتلیق رہے ،آپ ؒکی علمی حیات کا ایک عظیم علمی کارنامہ ازہر ہند جامعہ نظامیہ کی صورت میں موجود ہے جو حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اشارہ کی بنیاد قائم فرماکر صحیح اسلامی فکر کی حفاظت کا مضبوط بندوبست فرمایاجس سے بڑے بڑے باکمال پیدا ہوئے جو اپنے اپنے وقت میں فیضان علمی کا سر چشمہ رہے ،جنھوں نے اپنی تحریر و تقریر کے ذریعہ اپنی علمی فضیلت اور سیاسی بصیرت کے ذریعہ قوم و ملت کی رہنمائی کا حق ادا کردیا ۔اس کے علاوہ اشاعت العلوم، دائرۃ المعارف، اجمیر شریف میں مدرسہ معینیہ کا قیام، دارالعلوم و دیگر دینی اداروں کو امداد کی اجرائی وغیرہ جیسے علمی کارہائے نمایاں آپ نے نہ صرف انجام دیئے بلکہ ہر دم اسی کی فکر میں رہتے۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا جس دور میں اسلام اور عقائد اہل سنت پر حملے ہورہے تھے ،ایسے وقت میں صلاحیت و قابلیت کی ضرورت تھی ،اللہ تعالیٰ نے وہ تمام صلاحیتیں وقابلیتیں ان کی ذات میں جمع فرمائے تھے ،اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت فضیلت جنگ ؒ وہ جبل علم ہیں جنھوں نے دہریت اور نیچریت کا اسلامی اور عقلی طور پر رد بلیغ فرمایا،قادیانی فتنہ کے رد میں قلم اٹھایا اور کتب تصنیف فرمائیں جس کا جواب دینے سے مرزاقادیانی عاجز و قاصر رہا،آپ کی کئی تالیف کردہ کتب ہیں جن سے علم کی گہرائی کا ثبوت ملتا ہے جو وقت کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے تالیف کی گئیں ،جن کا مطالعہ تازگئ ایمان اور بالیدگی ٔ رو ح کا باعث ہے ۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے