- حضوراقدس ﷺ کی تعلیمات، اقوال، اعمال اور اخلاق کو اپنانا ہی زندگی کا مقصود
حیدرآباد 22نومبر (راست) حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اسلام میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور قرآن و سنت میں اس کی واضح تاکید کی گئی ہے۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا مطلب ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، اقوال، اعمال، اور اخلاق کو اپنی زندگی میں اپنانا اور ان کے مطابق عمل کرنا۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہر مسلمان کی دینی، دنیاوی، اور اخروی کامیابی کے لیے لازم ہے۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی سے انسان کا تعلق اللہ سے مضبوط ہوتا ہے، اور وہ صحیح معنوں میں ایک مسلمان کی زندگی گزارنے کے قابل ہوتا ہے ۔ نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ،یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ دنیا کا یہ دستو رہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے تواسی کی ہی اتباع کرتا ہے کہ میں اس کی ہر ہر ادا کو اپناؤں اور حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کے کامل ہونے کا سبب ہے اور محبت کا تقاضاتو یہ تھا کہ ہم حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قو ل و فعل پر عمل کرتے مگر آج کل بے باکی کا دور دورہ ہے جہالت دن بدن فروغ پارہی ہے فرائض وسنن کی پابندی تودور ان کے بارے میں علم تک حاصل نہیں کیا جاتا، حالانکہ اسلام میں سنت کی اہمیت ایسے ہے جیسے ستون کی اہمیت عمارت میں سنت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں سنت پر عمل کرنے والوں کو بڑی کامیابی کی خوش خبری سنائی گئی ہے۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہر مسلمان کی دینی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ یہ اتباع نہ صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ ہے بلکہ معاشرے میں عدل، امن اور روحانی سکون کو بھی فروغ دیتی ہے۔ اس کے بغیر دین کا حقیقی فہم اور عمل ممکن نہیں۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر آج حضرت موسیٰ علیہ السلام موجود ہوتے تو ان کو بھی ہماری اتباع سے چارہ نہ ہوتا۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم اتباع جنت میں داخل ہونے اورروگردانی اس سے محروم ہونے کی بنیاد ہے،حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میری پوری اُمت جنت میں داخل ہوگی، سوائے انکار کرنے والوں کے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ انکار کرنے والے کون ہیں؟ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اتباع کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے روگردانی کی اس نے انکار کیا۔اس لئے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اختیار کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہے اور حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے روگردانی کرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینا ہے ۔ ہمارے اسلاف صحابہ کرام ،تابعین ،ائمہ واولیاء اللہ کے جذبۂ اتباع کا یہ عالم تھا کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر کوئی فعل طبعی طورپر ثابت ہوتا تو اس کی بھی اتباع کرنے کی کوشش کرتے۔مولائے کائنات سید نا علی المرتضیٰ ؓؓنے سواری پر سوار ہونے کے بعد سواری کی دُعاء پڑھی اور دُعا پوری ہونے کے بعد تبسم فرمانے لگے، دریافت کیا گیا کہ یا علی! آپ کے تبسم کا باعث کیا ہوا، حضرت علی ؓ کے جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ اس موقع پر حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم بھی تبسم فرماتے ۔حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے بخاری میں طویل روایت منقول ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے ان تما م مقامات پر اُتر اُتر کر نماز ادا کرتے تھے، جہاں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دورانِ سفر نماز ادا فرمائی۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کدو کوپسند فرماتے ، امام ابویوسف ؓنے اپنے فرزندسے نقل کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے کدو زیادہ پسند نہیں ہے، حالانکہ اس کا تعلق طبعی پسند و ناپسند سے تھا؛ اس کے باوجود امام ابویوسفؓ کو یہ بات پسند نہ آئی۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں سونے کی انگوٹھی بنائی، لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنائیں، پھر جب حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حرام ہونے کا اعلان فرمایا اور اپنی انگوٹھی پھینک دی تو تمام صحابہ کرامؓ نے اپنی انگوٹھیاں اُتار پھینکیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کے جسم پر کسم کے رنگ کی ایک چادر تھی، حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کسی قدر ناگواری کا اظہار فرمایا، گھر واپس آئے تو چولہا سلگا ہوا تھا؛ چنانچہ اسی چولہے میں چادر ڈال دی۔ دوسرے روز حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، عورتوں کو دے دیا ہوتا، کیوں کہ ان کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں۔سیدنا غوث اعظم ؓ فرماتے ہیں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے ،دل میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے سوا کچھ نہیں رہنا چاہئے ،اس طرح تو فنا فی اللہ کے مقام پر فائز ہوجائے گا اور تیرے مراتب سے تمام حصے تجھے عطا کئے جائیں گے ،اللہ تعالیٰ تیری حفاظت فرمائے گا ، موافقت خداوندی حاصل ہوگی۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ بے شمار آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں قدم قدم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے۔ وہ محبت جوحضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا نہ سکھائے محض دھوکہ اور فریب ہے۔ وہ محبت جوحضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و پیروی نہ سکھائے محض لفاظی اور نفاق ہے۔ وہ محبت جو حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے عملی آداب نہ سکھائے محض ریا اور دکھاوا ہے۔ وہ محبت جوحضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے علم کو سربلند نہ کرے محض بولہبی ہے۔