حیدرآباد و تلنگانہ مذہبی گلیاروں سے

عبادت بندگی کا زیور اور مقصود تخلیق، نفل نمازوں کے ذریعہ رجوع الی اللہ کی تلقین۔ مولانا ممشاد پاشاہ کا خطاب


حیدرآباد 15نومبر (راست) اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی ہماری پیدائش کااصل مقصد ہے ،عبادت کا شوق ایک عظیم نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو عطا کرتا ہے۔ یہ شوق ہمیں اللہ سے قربت حاصل کرنے، اپنی زندگی میں سکون اور خوشی محسوس کرنے میں مدد دیتا ہے۔ عبادت کے ذریعے ہم اللہ کی محبت اور اس کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو اس کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ شوق دل میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان دنیاوی خواہشات کو پیچھے چھوڑ کر اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے۔ عبادت کے مختلف انداز جیسے نماز، تلاوتِ قرآن، ذکر اور دعائیں ہمیں اللہ کی عظمت کا احساس دلاتی ہیں اور ہمارے ایمان کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔اللہ سے محبت اور اس کے قریب ہونے کی خواہش کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی نیت کو خالص رکھیں اور عبادت کو محض رضائے الہی کے لیے ادا کریں۔قرآن و حدیث میں کئی جگہ ہمیں اپنے رب کی عبادت کی ترغیبات ملتی ہیں،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ،اے لوگو اپنے رب کو پوجو جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا۔ اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی (اسی لئے) بنائے کہ میری بندگی کریں۔اور پھر یہ عبادت کا سلسلہ کب تک رہنا چاہئے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں رہو۔لیکن آج ہم میں سے ایک بڑی تعداد نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دے کر، فضولیات اور گناہوں میں پڑ کر اپنی زندگی کے اس اصل اور حقیقی مقصد کو بھلایا ہوا ہے۔ان خیالات کا اظہار نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ دنیا کا یہ اصول ہے کہ اس دنیا میں جو بھی چیز بنائی جاتی ہے، اس کے بنانے کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے،ایک انسان بھی بلاوجہ اور بیکار کوئی چیز نہیں بناتاتو سوچئے کہ جس خالق اور مالک نے کائنات کا اتنا وسیع نظام بنایا ہے، اتنی بڑی مخلوق انسان کو پیدا فرمایا ہے وہ اسے بے کار اور بلا مقصد کیسے بنا سکتا ہے؟ انسان کی پیدائش کا بھی کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں انسان کی تخلیق کا مقصد بیان کیا ہے اورحضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم دین اسلام کی تعلیم و تبلیغ کی دن رات کی مصروفیات کے باوجود اللہ تعالیٰ کی بہت عبادت فرمایا کرتے۔ اعلان نبوت سے پہلے بھی غار حرا میں قیام و مراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات ساری ساری رات عبادتِ الٰہی میں گزار دیتے اور طویل قیام فرمانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمینِ شریفین میں سوجن آجاتی ، پھر بھی عبادت میں مشغول رہا کرتے ۔اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا عبادت کا شوق کتنا تھا ۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں ،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اس قدرقیام فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدمین شریفین میں سوجن آجاتی ،ایک دن سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے عرض کرتی ہیں ،یارسول اللہ ! آپ ایسا کر رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دئیے ہیں! حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، اے عائشہ! کیا میں اللہ پاک کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟۔اللہ تعالیٰ کی عبادت محتاجی دور کرتی ہے اللہ تعالیٰ کے حبیب حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ابنِ آدم! تو میری عبادت کے لئے فارغ ہو جا، میں تیرا سینہ مال داری سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند کر دوں گا اور اگر تو ایسا نہ کرے گا تو تیرے دونوں ہاتھ کاموں سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند نہ کروں گا۔یعنی اے انسان !تو اپنا دل میری عبادت و اطاعت کے لئے خالی رکھ،مطلب ہاتھ کام میں اور دل رب کی یاد میں، اس پر عمل کر، فراغت دل کے یہ ہی معنی ہیں، یہ مطلب نہیں کہ دنیا کا کاروبار نہ کر خود بھی بھوکے مرو بچوں کو بھی مارو۔ دل کی دنیا دوسری ہے اگر اس پر عمل نصیب ہوگا تو ان شاء اللہ !کمائی میں برکت دل میں فراغت حاصل ہوگی۔ اگر تو نے اپنے آپ کو دنیا کی فکروں میں ہی لگا دیا، تیرے دل میں دنیا اتر گئی تو تو کام اور فکر کرے گا زیادہ، ملے گا وہی جو تیرے مقدر میں ہے،تو مالدار ہوکر بھی فقیر ہی رہے گا۔ دل کا چین اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ یہ اس کے ذکر سے نصیب ہوتا ہے۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ یہ بھی یاد رکھئے کہ ہمیں تمام جہانوں کے رب کی عبادت دِکھاوے اور واہ وا کے لئے نہیں بلکہ اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہی کرنی ہے، ایسی ہی عبادت کا اُخروی فائدہ گمان سے باہر ہے ۔خلوص والی عبادت جنت میں داخل کروائے گی خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اس کی عبادت کرنے والے سے قیامت کے دن اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: میری عزت اور میرے جلال کی قسم! میری عبادت سے تیرا کیا ارادہ تھا؟ وہ عرض کرے گا: تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم! میرے اِرادے کو تو مجھ سے زیادہ بہتر جانتا ہے، عبادت سے میرا مقصد تیری یاد اور تیری رضا تھی۔ اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: میرے بندے نے سچ کہا، اسے جنّت کی طر ف لے جاؤ۔قراٰن و حدیث پر نظر رکھنے اور عمل کرنے والوں کی عبادت کے تو انداز ہی نِرالے اور جُدا ہوتے ہیں، فرائض و واجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ضرورت کی حد تک کمانے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کے علاوہ علمِ دین سیکھنا اور سکھانا، کثرت سے نوافل پڑھنا، نفلی روزے رکھنا اور رات دن قراٰنِ کریم کی تلاوت کرنا یہ سب ان کی زندگیوں کا حصہ ہوتا ہے۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے