ادبی گلیاروں سے مہاراشٹرا

معروف اردو روزنامہ راشٹریہ سہارا کی اشاعت آج سے بند

  • ممبئی، بنگلور اور کلکتہ میں آج سے بند ہوجائے گی روزنامہ راشٹریہ سہارا کی اشاعت
  • مامورین کی تبادلہ یا استعفیٰ کی پیشکش، اکثریت نے ستعفیٰ دے دیا۔

ممبئی:31،اکتوبر(ایجنسی) اُردو دنیا میں یہ خبر انتہائی رنج وغم کے ساتھ سنی جائے گی کہ معروف کارپوریٹ کمیٹی سہارا انڈیا کے تحت سہارا انڈیا مس میڈیا نے اُردو اخبار روزنامہ راشٹریہ سہاراکی ممبئی سمیت کئی شہروں میں اپنی اشاعت آج سے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق عروس البلاد ممبئی ،کولکتہ اور بنگلور کی اشاعت بند کردی گئی ہے اور س موقع پر اخبار کے عملے کو پہلی پیشکش کی گئی کہ وہ لکھنئو،دہلی اور گورکھپور تبادلہ لے لیں۔ جبکہ دوسری پیشکش کی گئی کہ وہ اگر تبادلہ نہیں چاہتے ہیں تو استعفیٰ دے دیں۔انہیں ان کے کئی سال کے بقایاجات دینے کے بارے میں کمپنی نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا ہے جوکہ ایک افسوسناک پہلو ہے۔اس طرح سبھی جگہ عملے کو مبینہ طور پر باہر کادروازہ دکھا دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ممبئی ،کولکتہ اور بنگلور ایڈیشن کو 18-17 سال کا عرصہ ہوگیا تھا،ذرائع کے مطابق فی الحال نئی دہلی، حیدرآباد ، لکھنئو اور گورکھپور سے روزنامہ سہارا کی اشاعت بند نہیں ہوگی ،ویسے حیدرآباد کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔

سہارا انڈیا کے روح رواں آنجہانی سبرت رائے نے چند سال قبل ممبئی میں سہارا اسٹار میں کمپنی کے تقریباً چار عملے سے ویڈیو کانفرنسنگ سے خطاب کرتے ہوئے ایک سنئیر صحافی اور ممبئی ایڈیشن کے ایڈیٹر جاوید جمال الدین کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اُردو ایک شیریں زبان ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے۔

ہفت روزہ عالمی سہارا سب سے پہلے ماجد رمن کی ادارت میں شائع ہوا اور پھر لکھنؤ سے 2000میں روزنامہ راشٹریہ سہارا کا اجراء عمل میں آیا۔اترپردیش میں گورکھپور ،کانپور اور دہلی ایڈیشن کے بعد کولکتہ ، پٹنہ،ممبئی،حیدرآباد اور بنگلور سے شروعات ہوئی تھی۔حیدرآباد میں مقامی صحافی شوکت علی صوفی اور جیلانی خان نے ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔بینگلور ایڈیشن 7،جولائی 2007 کو نکالا گیا اور جاوید جمال الدین کی ادارت میں کافی پھلا پھولا تھا،لیکن انہیں اس درمیان ممبئی طلب کرلیا گیا اور انہیں ممبئی کی کئی اہم ذمہ داریاں دے دی گئیں جن میں انتظامی امور بھی شامل تھے۔ممبئی میں سنئیر ایڈیٹر اسدرضانقوی ریزیڈنٹ ایڈیٹر مقرر کیے گئے اوران کے بعد صحافی سعید حمید کویہ ذمہ داری سونپی گئی اور جاوید جمال الدین کو بیورو چیف بنایاھیا اور پھر ان کا ایڈیٹوریل سربراہ کے طورپر تقررعمل میں آیا،2016 سے ممبئی ایڈیشن زوال پذیر ہوگیا کیونکہ یہاں کوئی بھی پیشہ وارانہ وتربیت یافتہ صحافی نہیں تھا۔
کولکتہ ایڈیشن کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر مشہور صحافی جہانگیر کاظمی مقرر کیے گئے،جوکہ روزنامہ انقلاب سے دوتین عشرے تک وابستہ رہے اورترقی کے خواب کے ساتھ سہارا سے وابستہ ہوگئے ،ان کے بعد فاروق شیخ کو ذمہ دار بنایا گیا۔جہانگیر کاظمی کے بعد کولکتہ ایڈیشن کی ساخت کمزور ہوگئی۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا کو ملک بھر میں شروع کرنے اور اُردو صحافت کو 2000 کے عشرے میں نئی زندگی دلوانے میں گروپ ایڈیٹر عزیز برنی کا اہم رول رہا ج ہوں نے شمالی ہندمیں نہیں بلکہ مغربی،مشرقی اور جنوبی ہند سے بھی کئی ایڈیشن نکاکر اردو کابول بالا کردیا۔جاوید جمال الدین کے مطابق ایک عرصہ تک ممبئی میں روزنامہ انقلاب ،روزنامہ اردو ٹائمز کی اجارہ داری رہی ،لیکن سہارا کی اشاعت اُن کے لیے خصوصی طورپر روزنامہ انقلاب تک کے لیے چیلنج بن گیا۔یہاں کے اور جنوبی ہند کے اخبارات شمالی ہندستان کی خبروں کو اہمیت نہیں دیتے تھے، لیکن سہارا کی اشاعت کے بعد اس کی اہمیت بڑھ گئی۔ سہارا کے سابق ایڈیٹر اور شاعر اسد رضاچنقوی نے روزنامہ راشٹریہ سہارا کے تین شہروں ممبئی ،کولکتہ اور بینگلور ایڈیشن کے بند ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو صحافت کے لیے یہ ایک دکھ بھری اور غم زدہ خبر ہے ۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے