حیدرآباد و تلنگانہ

حضرت ابو ہریرہ پر طعن، آدھے دین پر طعن کے مماثل، آپ کے کان حدیث کو سننے اور آنکھ دیدار مصطفیﷺ کے لئے وقف تھے

تائید ربانی اور فیض نبوی سے غیر معمولی قوت حافظہ کے حامل۔ مولانا ڈاکٹر مفتی حافظ سید احمد غوری نقشبندی کا خطاب

حیدرآباد۔ 25؍اکتوبر (راست)حضرت ابو ہریرہؓجلیل القدر صحابی ہیں،صحابہ کرامؓ میں آپ کو یہ نمایاں حیثیت حاصل ہے کہ آپ مکثرین صحابہ یعنی کثرت سے احادیث روایت کرنے والوں میں شامل ہیں۔آپ سے تقریباً پانچ ہزار تین سو چوہتر(5374) احادیث مروی ہیں۔آپ کی زندگی کا مقصد اور محور احادیث شریفہ کی سماعت ،روایت اور اشاعت رہا،آپؓ نے اپنے کانوں کو حضوراکرمﷺکے اقوال کو سننے اور آنکھوں کو دیدارمصطفیﷺ کے لئے وقف کردیاتھا۔ان خیالات کا اظہار مولانا ڈاکٹر مفتی حافظ سید احمد غوری نقشبندی نائب شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ وڈائرکٹر MASIR نے جامع مسجد حضرت بلالؓ،صالحین کالونی،این۔ایس۔کنٹہ میں قبل نماز جمعہ کیا۔ سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے مولانا نے کہا کہ قدرت ہر کام کے لئے کچھ افراد کو پیدا کرتی ہے جو اپنے مقصد حیات کی تکمیل میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں اور اپنے فرض منصبی کو حیرت انگیز طور پرادا کرتے ہیں،مشیت ایزدی نے حضور اکرمﷺکے اقوال ،افعال واحوال کی حفاظت کے لئے جن برگزیدہ شخصیات کا انتخاب فرمایا ان میں حضرت ابوہریرہؓ بھی امتیازی اہمیت کے حامل ہیں۔امام ذہبیؒنے فرمایا:حضرت ابو ہریرہؓنے نبی کریمﷺسے کثیر،پاکیزہ بابرکت علم حاصل کیا،اور جو کچھ آپ ﷺسے سنا اسے نہ صرف بخوبی یادرکھا بلکہ حرف بحرف دوسروں تک پہنچایا،آپﷺکی زبان مبارک سے نکلنے والے ایک ایک حرف کی جس جانفشانی سے حضرت ابوہریرہؓنے حفاظت کی وہ انہی کا حق تھا،اس خدمت کے حوالہ سے وہ اصحاب اخیارؓمیں ممتازرہے۔امام بخاری ؒ نے فرمایا کہ حضرت ابوہریرہؓسے آٹھ سو صحابہ اورتابعین نے روایت کی۔مولانا نے کہا کہ مستشرقین اور بعض اسلام دشمن عناصر حضرت ابو ہریرہؓکو ہدف تنقید بناکر ان کی مرویات کے اعتبار کو ختم کرنا چاہتے ہیں،ان کی جانب سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ متأخر الاسلام ہیں، اس صحابی کی روایات سب سے زیادہ کیسے ہوسکتی ہیں جو بعد میں اسلام قبول کئے ہوں؟ حضرت ابو ہریرہؓنے سنہ7ہجری میں اسلام قبول کیا،اور سنہ 11ہجری میں حضور اکرمﷺکا وصال ہوا،اس طرح انہیں چار سال صحبت رسول کا شرف ملا،ان چارسالوں میں ایک سال وہ بحرین میں بھی رہے،نتیجۃً انہیں تین سال خدمت نبوی میں گزارنے کا موقع میسر آیا۔سوال یہ ہے کہ تین سال صحبت پانے والے صحابی حضرت ابو ہریرہؓکی روایات کیسے ان صحابہ سے بڑھ سکتی ہیں جنہیں طویل عرصہ کی صحبت نصیب ہوئی؟جنہوں نے مکی اور مدنی دونوں دور دیکھے ہیں؟اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓکو بارگاہ نبوی ﷺسے خصوصی فیض عطا ہوا،جیساکہ بخاری اور مسلم وغیرہ کی روایات سے معلوم ہوتا کہ حضرت ابوہریرہؓنے حضور اکرمﷺکے سامنے عرض کیا کہ میرا حافظہ کمزورہے ،کچھ یاد کرتا ہوں تو بھول جاتا ہوں،آپﷺنے انہیں چادر پھیلانے کا حکم دیا،جب انہوں نے چادر پھیلائی تو آپ نے اس میں کچھ ڈالا اور فرمایا:ابو ہریرہ !اس کو اپنے سینے سے لگالو!،حضرت ابوہریرہؓفرماتے ہیں اس کے بعد میراحافظہ اتنا قوی ہوگیا کہ جو سنتا یاد ہوجاتا،بلکہ جو چیزیں یادداشت سے نکل گئی تھیں وہ بھی یاد ہوگئیں۔ذخیرۂ احادیث میں حضرت ابوہریرہؓکی روایات کی کثرت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ انہوں نے خدمت حدیث کے لئے اپنے آپ کو مکمل طور پر وقف کردیا تھا۔امام حاکمؒنے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓسے حضرت ابو ہریرہؓسے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا:اللہ کی قسم!اس میں کوئی شک نہیں کہ ابو ہریرہؓنے خدمت رسول میں رہ کر وہ کچھ سنا جو ہم نے نہیں سنا،انہیں وہ وہ چیزیں معلوم ہیں جن کا ہمیں علم نہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ تجارت پیشہ افراد تھے،ہم پر گھر کی ذمہ داریاں تھیں،خاندان کنبہ سب تھا،ہم اپنی معاشی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے صبح و شام حضور اکرمﷺکی خدمت بابرکت میں حاضر ہوتے تھے،لیکن ابو ہریرہؓمال ودولت،تجارت،گھر ،کنبہ سب سے صرف نظر کرکے اپنے آپ کو حضور اکرمﷺکے لئے وقف کردیا تھا،وہ ہمیشہ آپﷺکے ساتھ رہتے،ان کا کوئی ذریعہ آمدنی نہ تھا،جو کچھ حضور ﷺعنایت فرماتے ’کھالیتے۔مولانا نے کہا کہ حضرت ابو ہریرہؓ خداداد غیر معمولی قوت حافظہ کے باوجود حفظ ِ حدیث،دور وتکرار کا خصوصی اہتمام فرماتے،انہوں نے رات کا ایک حصہ ’احادیث کے دور کے لئے مختص کررکھا تھا۔سنن دارمی میں ہے،حضرت ابو ہریرہؓفرماتے ہیں: میں نے رات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا ،میں رات کے پہلے حصہ میں سوجاتا ہوں،درمیانی حصہ قیام (نوافل وتہجد)کے لئے خاص کردیا ہوں اور اخیر تہائی رات رسول اللہﷺکی احادیث شریفہ کو دہراتا اور دور کرتا ہوں۔اسلام دشمن عناصر کے اعتراض کا معقولاتی تجزیہ کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ حضرت ابوہریرہؓکے کثیر الروایات ہونے پر اعتراض کرنا عقلاً بھی درست نہیں، کیونکہ یہ طے ہے کہ کم سے کم آپ نے تین سال کی صحبت پائی ہے، اور قمری لحاظ سے تین سال کے تقریباً(1065)دن ہوتے ہیں،اور آپ کی روایات کی تعداد (5374)ہے،آپ کی بیان کردہ روایات(5374) کو اگر (1065)دن پر تقسیم کیا جائے تو روزانہ پانچ یا چھ احادیث ہر دن کے حساب سے ہوں گی۔کیا حضرت ابو ہریرہؓجیسے قوی الحفظ،دن رات خدمت اقدس میں حاضر باش ،ہمہ تن گوش رہنے والے صحابی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ روزانہ پانچ یا چھ احادیث یاد کرلیں؟جب غیر عرب ممالک،ہندوستان وغیرہ میں ہمارا خود مشاہدہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں دس، گیارہ سال کا چھوٹا سا بچہ روزانہ چالیس، پچاس آیات حفظ کرلیتا ہے،جب کسی عجمی بچہ کے روزانہ چالیس سے پچاس آیات حفظ کرنے کو تسلیم کیا جاتا ہے تو صحابی رسول کے روزانہ پانچ یا چھ احادیث یاد کرنے کو کیوں محال سمجھاجائے گا؟۔مولانا نے کہا کہ جس عاشق ِصادق اور اسلام کے محسن نے محض خدمت ِ حدیث کے لئے تجرد کی زندگی گزاری،گھر کی سکونت چھوڑ کر مسکینی کو اختیار کیا،تجارت وحرفت پر اشاعت حدیث کو ترجیح دی’ اس برگزیدہ شخصیت کی بارگاہ میں خراج عقیدت و محبت پیش کرنے کے بجائے انہیں تنقید کا نشانہ بنانا محسن کشی اور بے ضمیری کہلائے گا۔حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒنے فرمایا:حضرت ابوہریرہؓپر طعن کرنے سے نصف احکام شرعیہ مطعون ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم کی چھ ہزار سے زائد آیات میں 500آیات ہی احکام سے متعلق ہیں ،ائمہ مجتہدین نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ احکام شرعیہ میں (3000)احادیث وارد ہوئی ہیں،اور ان تین ہزار احادیث میں (1500)یعنی نصف تعداد وہ ہے جو حضرت ابو ہریرہؓسے منقول ہے،لہذا حضرت ابوہریرہؓپر طعن کرنا ’نصف احکام شریعہ پر طعن کرنا ہے۔آپ تو وہ مسلم الثبوت صحابی ہیں جن سے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ،حضرت عبد اللہ بن عمرؓ،حضرت جابر بن عبد اللہؓ اور حضرت انس بن مالکؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام نے روایت کی ہے۔مولانا نے کہا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حضرت ابو ہریرہؓ کو نشانہ بنایا جارہا ہے،تاکہ آپ کا اعتبار ختم کیا جائے،اگرآپؓ پر زبان ِطعن دراز ہوگی تونہ صرف آدھا دین مطعون ہوگا بلکہ آٹھ سو سے زائد صحابہؓ اور تابعینؒ کا اعتبار ختم ہوجائے گا۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے