بہار مذہبی گلیاروں سے

حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء صف اولیاء میں ممتاز شخصیت کے حامل ہیں: مفتی غلام رسول اسماعیلی

پٹنہ:
حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء سلسلہ چشتیہ کے عظیم ماہ تاباں ہیں جو دلی کو اپنی روحانی کرنوں سے روشن و منور کر رہے ہیں انہیں پاکپتن شریف کے درویش اور اپ کے مرشد شیخ العالم حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرعلیہ الرحمہ نے خلافت عطا فرمائی تھی جب کہ حضرت بابا جی کو ان کے مرشد اور دہلی میں آسودہ خواب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے خلافت مرحمت فرمائی جب کہ حضرت خواجہ قطب صاحب کو حضرت خواجہ غریب نواز، سلطان الہند، بزرگ خواجہ، خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے خلافت کا تاج عطا فرمایا تھا۔
مذکورہ خیالات کا اظہار استاذ مرکزی ادارہ شرعیہ مفتی غلام رسول اسماعیلی خطیب وامام قدیمی جامع مسجدمحمدپورنے عرس محبوب الہی کے موقع پرمسجد ھذاکے منعقدہ محفل میں کیا۔
مصلیان مسجد ھذا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت محبوب الٰہی بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا اور نانا سید علی اور سید عرب دونوں بھائی بخارا میں میں مقیم تھے اور مغلوں کے حملے میں ہجرت کرکے لاہور آگئے اور یہیں حضرت خواجہ سید علی کے ہاں صاحبزادے سید احمد اور حضرت خواجہ سید عرب کے ہاں صاحبزادی زلیخا پیدا ہوئیں بعدازاں سایہ خاندان بدایوں آباد ہوگیا اور وہیں سید احمد اور بی بی زلیخا کی شادی ہوئی جن سے سید محمد پیدا ہوئے جو سطان المشائخ، محبوب الٰہی، سلطان جی اور حضرت نظام الدین اولیاء کے نام سے مشہور ہیں آپ پانچ برس کی عمر میں یتیم ہوئے، والدہ نے جس طرح سے آپ کی تعلیم و تربیت کی وہ آج کی مائوں کے لئے روشن مثال ہے۔
درمیان خطاب انہوں نے کہاکہ حضرت محبوب الٰہی کو شب عبادت میں حق تعالیٰ نے یہ دکھا دیا تھا کہ نظام جس مومن نے تیری زیارت کی یا کرے گا۔ ہم اسے بخش دیں گے تیرہویں صدی کے آخر اور چودھویں صدی کے اوائل کی دہلی میں آپ سے سے منفرد کردار کے حامل ہیں آپ کو سلسلہ چشتیہ کے عدم تشدد کے تصور کو ثقافتی مذہبی رواداری اور امن پسندی کی شکل دینے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے دور میں درجن بھر بادشاہ آئے لیکن ولی کے اس روحانی سلطان اور امن کار نے شہنشاہوں اور بادشاہوں کی توسیع پسندانہ پالیسی کا ساتھ دینے سے مکمل انکار کیا اور کبھی کسی بادشاہ کے دربار میں(ماسوائے سماع پر مناظرہ کے) کبھی حاضر نہ ہوئے۔
حضرت محبوب الٰہی ۲۰برس کی عمر میں حضرت بابا فرید گنج شکر کے مرید ہوئے اور ۲۴ سال کی عمر میں تخت خلافت پر متمکن ہوئے اور ۶۶ سال تک ہندوستان کی روحانی شہنشاہی کا منصب آپ کے سر مبارک کی زینت رہا.
غیاث الدین تغلق بھی اپنے پیش رو قطب الدین م بارک کی طرح حضرت محبوب الٰہی کی دشمنی میں مبتلا تھا اس نے بنگال کی مہم پر جانے سے قبل حضرت کو فرمان بھیجا کہ میرے آنے سے قبل دہلی سے رخصت ہو جاؤ جس پر آپ نے وہ تاریخی جملہ ادا فرمایا کہ ’’ہنود دلی است‘‘ (ابھی دلی دور ہے) وہ بنگال کی مہم سے واپس لوٹا تو اس کے ولی عہد شہزادہ ملک جونا نے باپ کے استقبال کے لئے شہرسے باہر لکڑی کی نئی بارہ دری بنوائی۔ باپ کو ہاتھوں کی نذر کے ساتھ سلامی کے لئے پیش کی تو نئی چوبی بارہ دری زمین بوس ہوگئی اور تغلق اس کے نیچے دب کر ہلاک ہو گیا اور آپ کا فرمان کہ ہنوز دلی دور است حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا۔
اخیر میں انہوں نے کہاکہ محبوب الہی کی ذات کئی جہات سے منفرد ہے انکی زندگی کا مطالعہ وقت کی اواز ہے۔
حضرت نے اپنے وصال سے چالیس روز پہلے سے کھانا چھوڑ دیا تھا اور رونے کی یہ حالت تھی کہ ذرا سی دیر کو بھی آنسو نہ تھمتے تھے کمزوری بڑھتی رہی ایک بزرگ نے عرض کیا، حضرت اگر آپ کھانا نوش نہیں فرمائیں گے تو طاقت کیسے قائم رہے گی؟ جواب دیا کہ جو شخص جناب سرور کائنات کا مشتاق ہو اس کو دنیا کا کھانا کیسے بھائے۔ حضرت شیخ رکن الدین سہروردی اپنے وقت کے زبردست بزرگ تھے وہ مزاج پرسی کو تشریف لائے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ جب تک چاہیں دنیا میں رہیں آپ بھی اللہ کے محبوب ہیں۔ آپ سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچ رہا ہے آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کچھ دن اور دنیا میں رکھے! حضرت یہ سن کر آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت رسالت مآبؐ فرماتے ہیں کہ نظام ہم کو تمہارا بڑا اشتیاق ہے، پس جس کا رسول اللہؐ انتظار فرمائیں وہ کیسے دنیا میں رہ سکتا ہے۔
حضرت پر غشی طاری ہو جاتی تھی ہوشیار ہوتے تھے تو دریافت فرماتے تھے کوئی مہمان آیا؟ میں نے نماز پڑھ لی؟ لوگ کہتے تھے کہ سرکار نے ابھی نماز پڑھی ہے مگر حضرت دوبارہ نماز پڑھتے ہیں اس طرح ایک ایک نماز کو کئی کئی دفعہ ادا فرماتے اور کہتے میردیم و میردیم و میردیم
(ہم جاتے ہیں ہم جاتے ہیں ہم جاتے ہیں)
اسی حال میں تمام خدمت گاروں، مریدوں اور عزیزوں کو بلا کر فرمایا کہ تم گواہ رہنا، اقبال خادم کوئی چیز جماعت خانے میں بچا کر نہ رکھے سب کچھ خیرات کر دیا جائے ورنہ قیامت کے دن حساب دینا ہوگا عرض کیا گیا کہ خواجہ اقبال نے حکم کی تعمیل کی ہے اور سب کچھ تقسیم کر دیا ہے صرف درویشوں کے لئے چند دن کے لائق غلہ باقی رکھا ہے حضرت اس پر ناراض ہوگئے اور فرمایا کہ زمین کی اس ریت کو کیوں باقی رکھا ہے گوداموں کے دروازے کھول دو اور غریبوں سے کہو کہ ان کو لوٹ لیں اور کچھ باقی نہ چھوڑیں۔
۱۸ ربیع الثانی ۷۲۵ھ کو سورج نکلنے کے بعد یہ آفتاب طریقت غروب ہوگیا حضرت کی وصیت کے موافق تدفین عمل میں آئی جہاں آج کل حضرت کا روضہ ہے یہاں کسی زمانے میں جنگل میں تھا حضرت شیخ رکن الدین سہروردی نے نماز جنازہ پڑھائی کہتے ہیں حضرت نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ جنازے کے سامنے حضرت شیخ سعدی کی وہ غزل گائی جائے جس کا ایک شعر یہ ہے۔
اے تماشا گاہے عالم روئے تو
(اے کہ تیرا چہرہ(مبارک) دنیا کے دیدار کی چیز ہے تو کس کے دیدار کو چلا؟)
قوال یہ شعر گاتے جاتے تے اور بے شمار مخلوق دھاروں دھار روتی تھی۔
اس موقع پر ایڈوکیٹ ریاض عالم عرف راجو،نجم الھدی، غلام محمد، عبد الخلیل، عبدالجلیل، اقبال احمد سمیت پچاسوں حضرات محفل میں شریک تھے۔
اخیر میں فاتحہ ودعا پر محفل کا اختتام عمل میں آیا۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے