آپ بلند پایہ محدث، صاحب بصیرت فقیہ اور روحانی پیشوا۔ مولانا ڈاکٹر مفتی حافظ سید احمد غوری نقشبندی کا خطاب
حیدرآباد۔ 19/ اکتوبر (راست) عارف باللہ ابو الحسنات حضرت سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ ایک بلند پایہ محدث، صاحب بصیرت فقیہ، اور روحانی پیشوا تھے، جنہوں نے اپنے علم وعمل، زہد و تقویٰ اور روحانی بصیرت سے لاکھوں افراد کو فیض پہنچایا۔ آپ کی ذاتِ گرامی دین کے مختلف شعبوں میں امتیازی مقام رکھتی ہے ، آپ تمام علوم وفنون میں درجہ امامت پر فائز تھے تاہم حدیث اور فقہ کی بے مثال خدمات کے حوالہ سے مشہور زمانہ ہوئے، آپ کی حدیث دانی، بے مثال محدثانہ خدمات کا عرب وعجم کے ارباب علم وفضل نے اعتراف کیا اور آپ کو ” محدث دکن ” کے لقب سے ملقب کیا، آپ کا شمار ان علماء ربانیین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے دور میں ایک طرف تفسیر، حدیث و فقہ کی خدمت اور اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا اوردوسری طرف تصوف و طریقت اور روحانیت کے حوالہ سے قابل رشک خدمات انجام دیں، لاکھوں بندگان خدا نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور روحانی فیض حاصل کیا، اسی لئے آپ کو جامع شریعت وطریقت بزرگ کہا جاتا ہے۔آپ کو ” فخر العلماء والمحدثین، خاتمۃ المحققین، سید العارفین اور محدث دکن” جیسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اُن شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں تائید ربانی سے دین متین کی پاسبانی کی ، آپ کو حامی شریعت رہبر طریقت اور مجدد دین وملت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو ہمیں اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور دین کی خدمت کا درس دیتا ہے۔ان خیالات کا اظہار مولانا ڈاکٹر مفتی حافظ سید احمد غوری نقشبندی نائب شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ نے بروز ہفتہ بعد نماز ظہر دار السرور، صالحین کالونی، این۔ ایس۔ کنٹہ میں منعقدہ علمی وفکری نشست کے دوران کیا۔ سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے مولانا نے کہا کہ 10 ذی الحجہ 1292ھ بروز جمعہ آپ کی ولادت ہوئی اور 18 ربیع الثانی 1384ھ میں آپ کا وصال باکمال ہوا۔ آپ حسینی سادات سے ہیں، آپ کے والد ماجد عارف باللہ حضرت سید مظفر حسین نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جنہیں حضرت مسکین شاہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی، حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ کی حیات مبارکہ اتباع سنت کا نمونہ تھی، فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ مستحبات کی ادائی کا بھی اہتمام فرماتے، نسبی وجاہت، علمی نور اور روحانیت و ولایت کے آثار چہرہ سے عیاں تھے ، جو شخص آپ کو دیکھتا گرویدہ ہوجاتا۔ آپ کے علمی و روحانی کمالات کے ساتھ ساتھ آپ کا تقویٰ اور زہد بھی قابلِ رشک تھا، آپ زہد و تقویٰ کا پیکر تھے، مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرتے۔ مولانا نے کہا کہ حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ و قادریہ میں عارف باللہ حضرت پیر سید بخاری شاہ نقشبندی قادری رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت حاصل تھی، اس سلسلہ کی ترویج و اشاعت میں آپ کا کلیدی کردار رہا،آپ نے اس کے فیض کو عام کیا اور اس کی روحانی تعلیمات کو عوام و خواص تک پہنچایا۔ آپ کی ذات بابرکت سے بے شمار افراد نے روحانی فیوض و برکات حاصل کئے اور آپ توجہات باطنی اور تربیت سے دلوں کی دنیا میں انقلاب برپا ہوا۔دینی اور روحانی اعتبار سے آپ کی خدمات بے شمار ہیں۔ آپ نے نہ صرف لوگوں کو دینی علوم کی تعلیم دی بلکہ ان کی روحانی تربیت اور اصلاحِ احوال کا بھی بیڑا اٹھایا۔ مصلح و مربیِ روحانی کی حیثیت سے آپ کی تربیت یافتہ شخصیات آج بھی دین و دنیا میں نمایاں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔دکن کے اکثر علماء کرام نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی۔لوگ آپ کی صحبت میں بیٹھ کر معرفت کے خزانے حاصل کرتے تھے۔ آپ کی تحریری اور تقریری خدمات آج بھی امت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔آپ کی تصانیف میں "زجاجۃ المصابیح” کو نمایاں حیثیت حاصل ہے، یہ عربی زبان میں حدیث شریف کا ایک انسائیکلوپیڈیا ہے، جس طرح شافعی حضرات کے یہاں "مشکاۃ المصابیح” ایک متداول اور مستند کتاب ہے، جس میں ان احادیث شریفہ کو جمع کیا گیا جو شافعی مذہب کی تائید کرتی ہیں، لیکن مذہب حنفی کے مستدلات اور فقہ حنفی کی مؤید روایات اگرچہ مختلف کتب احادیث میں مذکور تھیں، تاہم حنفیوں کے پاس حدیث کی ایسی کوئی جامع کتاب نہیں تھی جس میں ان تمام احادیث وآثار کو یکجا کردیا گیا ہو جس پر مذہب حنفی کا مدار ہے، یہ سعادت اللہ تعالی نے حیدرآباد دکن کے ایک عالم ربانی کے نصیب میں رکھی تھی، بارہ صدیوں سے احناف کے کاندھوں پر جو قرض تھا اسے حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ نے اتار دیا، آپ نے نہ صرف احادیث وآثار کو جمع کیا بلکہ کتاب پر عمدہ حواشی اور علمی تعلیقات رقم فرمائیں اور احناف پر ہونے والے اعتراضات کا مدلل ومسکت جواب دیا۔ اس کتاب کی اہمیت وافادیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک سے اس کی اشاعت عمل میں آرہی ہے، حرمین شریفین کی لائبریری میں یہ علمی ذخیرہ عوامی استفادہ کے لئے رکھا گیا ہے، جس سے یہ کتاب اقطاع عالم سے آنے والے حجاج وزائرین اورعوام وخواص کے لئے استفادہ کا ذریعہ بنی ہوئی ہے، عوام اور اردو داں طبقہ کے لئے اس کتاب کا "نور المصابیح” کے نام سے اردو میں ترجمہ کرکے شائع کیا گیا، مرکز علم وعرفاں جامعہ نظامیہ سے اب اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہے، جس کی اب تک چار جلدیں طبع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔