ہماچل و اترانچل

اسلامی شرعیت سے متصادم اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کا مسودہ ہوگیا تیار

دہرادون:
اس مسودے میں تعدد ازدواج، حلالہ اور عدت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اور مسلمانوں کے پرسنل لاء کے تحت طلاق نہ دینے، طلاق کا حق زوجین میں سے ہر ایک کو ملنے کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سی سفارشات پیش کی گئی ہیں، ان سب کو دیکھ کر حکومت کا ٹارگیٹ واضح ہے کہ ”یکساں سول کوڈ“ صرف اور صرف مسلمانوں کی مذہبی تشخص اور پرسنل لاء کو ختم کرنے کے لیے لایا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے بالمقابل اس سے دوسرے مذاھب کو زیادہ نقصان پہنچنے والا نہیں ہے۔ کیونکہ دیگر مذاھب کے پرسنل لاء میں مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور وہ ان تبدیلیوں کے ساتھ رفتہ رفتہ وہ لوگ ڈھل جاتے ہیں، اس لئے ”یکساں سول کوڈ“ سے آنے والے مسائل اور دقتوں اور پریشانیوں سے صرف مسلمانوں ہی کو گزرنا پڑیگا، اور اگر یکساں سول کوڈ ملک میں نافذ ہوجاتا ہے تو کیا اس مستقبل میں اسلام اور اسلامی شعائر کے تحفظ کی بھی کوئی ضمانت لی جاسکتی ہے؟
لہذا ضروری ہے کہ اس وقت مذہبی رہنما اور پرسنل لاء اتراکھنڈ کے مسودے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک بھر میں اسکو روکنے کے تئیں ٹھوس اقدامات کرے۔ صرف ای میل اور واٹسپ کے ذریعے حکومت کے اس خطرناک منصوبے کو روکا نہیں جاسکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مسلمان روڈ پر اتر آئے اور تین طلاق والے معاملے کی طرح اس پر بھی ہاہاکار مچائیں، اس سے تو بہر حال کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہونے والا بلکہ نقصان ہی اٹھانا ہوگا۔ لیکن اتنا تو کیا ہی جاسکتا ہے کہ مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے ذمہ داران باہم مل کر اسکے خلاف ”سائلنٹ کمپین“ چلائیں جو گودی میڈیا کی نظروں سے بھی اوجھل رہے اور کام بھی بآسانی ہوجائے۔
لیکن اگر یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی پرسنل لاء اور دیگر مذہبی تنظیمیں اسی رفتار بےڈھنگی پر چلتی رہیں تو جو کچھ اتراکھنڈ کے مسلمانوں پر ہونے جارہا ہے، کچھ ہی عرصے کے بعد وہ پورے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ ہوگا۔ پھر اس وقت کی گہار اور ہزار کوششیں بےسود اور بیکار ہوں گی۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے