حیدرآباد و تلنگانہ

حلال ذرائع سے حاصل ہونے والی دولت، دونوں جہاں میں سرخرو رکھتی ہے

  • کمائی کے کسی بھی جائز ذریعہ کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ مولانا ممشاد پاشاہ کا خطاب

حیدرآباد9 ڈسمبر(راست) دین اسلام کامل و مکمل نظام حیات ہے، جس میں نہ افراط کی گنجائش ہے اور نہ ہی تفریط کی بلکہ اس کے تمام ارکان میں اعتدال ہی اعتدال ہے۔ اسلام نہ تو رہبانیت کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی بھکاری پن کو کسی صورت تسلیم کرتا ہے بلکہ کسبِ حلال کی نہ صرف ترغیب بلکہ حکم دیتا ہے۔ اسلام میں واضح طور پر اس کے تمام جائز ذرائع کی حوصلہ افزائی اور اس سے متعلق تفصیلی احکامات موجود ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں،ایک صحابیؓ نے عرض کیا،یارسول اللہ!میرے لئے دعا فرمائیں کہ میں مستجاب الدعوات ہوجاؤں۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اپنے کھانے کو پاک کرو،اللہ کی قسم! جب کوئی شخص لقمہ حرام پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس روز تک اللہ تعالیٰ اس کا عمل نہیں کرتا۔نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشادپاشاہ صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ اپنے خطاب میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو تن آسان نہیں بناتا بلکہ کسی فرد پر بوجھ بنے بغیر زندگی گزارنے کا ایک ضابطہ کسب حلال کے نام سے عطا کیا ہے،جس کو اختیار کرکے اپنی ضروریات کی تکمیل کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال کا بہترین کفیل ہوسکتا ہے۔ کسب حلال کی اصطلاح چند ایک چیزوں کی خریدو فروخت یا تجارت پر موقوف نہیں ہے بلکہ ہر وہ کام جس کے متعلق شریعت میں کوئی ممانعت نہ ہو، قابل تحسین بلکہ باعثِ اجر و ثواب ہے۔ کسب حلال کے لیے کوئی بھی جائز پیشہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ انبیائے کرام نے مختلف پیشے اختیار فرمائے۔قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،اور ہم نے تمہارے فائدے کے لئے اسے ایک خاص لباس کی صنعت سکھادی تاکہ تمہیں تمہاری جنگ کی آنچ سے بچائے تو کیا تم شکر ادا کرو گے۔ ارشافر مایا کہ ہم نے تمہارے فائدے کے لئے حضرت داؤد ؑکو ایک لباس یعنی زرہ بنانا سکھا دیا جسے جنگ کے وقت پہنا جائے تا کہ وہ جنگ میں دشمن سے مقابلہ کرنے میں تمہارے کام آئے اور جنگ کے دوران تمہارے جسم کو زخمی ہونے سے بچائے تو اے حضرت داؤد ؑ اور ان کے گھروالوں تم ہماری اس نعمت پر ہمارا شکر ادا کرو۔ ہم یہ جانیں کہ انبیاء کرام ؑ نے کون کون سا پیشہ اختیار کیا اور کس کس پیشے کے حوالے سے بھی ہماری رہنمائی کی۔حضرت آدم ؑ دنیا میں آنے والے پہلے انسان ہیں جنہوں نے کھیتی باڑی کو اپنا پیشہ بنایا۔حضرت شیث ؑ کپڑا تیارکیا اور کپڑے کی صنعت کی بنیاد رکھتے ہوئے کپڑے سے متعلق انسانیت کی رہنمائی کی۔حضرت ادریسؑ درزی کے کام سے منسلک تھے، کپڑوں کی کٹائی اور سلائی کرتے تھے، دنیا کی پہلی سوئی حضرت ادریس ؑ نے ایجاد کی۔حضرت نوح ؑ بڑھائی تھے، انہیں اللہ تعالی نے کشتی بنانے کا حکم دیا تھا، حضرت نوح ؑ دنیا کے پہلے ماہر ملاح بھی ہیں۔حضرت صالح ؑ اونٹوں کا کاروبار کرتے تھے اور اونٹنیوں کے دودھ کی تجارت کیا کرتے تھے۔حضرت داؤد ؑ لوہے کا کاروبار کرتے تھے اور لوہے کے ہتھیار بھی بنایا کرتے تھے۔حضرت موسیٰ ؑبکریاں چرایا کرتے تھے۔حضرت ہارونؑ ایک وزیر ہوا کرتے تھے۔حضرت شعیب ؑ زراعت سے منسلک تھے۔حضرت ایوب ؑ زراعت کے شعبے سے منسلک تھے آپ کھیتی باڑی کرتے تھے۔حضرت یوسف ؑ زراعت کے پیشے سے منسلک تھے اور آپ نے دنیا کو زراعت کے حوالے سے ایک مرکزی نظام دیا، خوراک کی کثرت کو ذخیرہ کرنے کا ذریعہ بھی آپ نے بتایا۔حضرت اسحاق ؑ اور حضرت یعقوب ؑ بھی چرواہے تھے۔حضرت اسماعیل ؑ ماہر شکاری اور ماہی گیر تھے اس کے علاوہ حضرت اسماعیل ؑ ایک ماہر مترجم تھے 70زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ حضرت لوط ؑ تاریخ دان تھے۔حضرت داؤد ؑبہترین تاجر تھے، آپ تجارت کیا کرتے تھے۔حضرت ابراہیم ؑماہر تعمیرات تھے، خانہ کعبہ آپ نے ہی تعمیر کیا تھا۔حضرت سلیمان ؑنے پہلی بار پیتل کی کان کنی کی، آپ ایک بادشاہ تھے۔حضرت ذوالکفل ؑ کھانا پکانے میں ماہر تھے اور یہی ان کا پیشہ تھا۔حضرت زکریا ؑ بڑھائی تھے۔حضرت یونس ؑماہی گیر جب کہ حضرت عزیرؑ کھیتی باڑی کرتے تھے، لوگوں کو درختوں کی قلم کاری کرنا آپ ہی نے سکھایا۔حضرت الیاس ؑ کپڑا بنتے تھے دھاگے کے حوالے سے بھی آپ کو ماہر مانا جاتا ہے۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ بطور خاص کوئی پیشہ اختیار نہیں فرمایا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایماندار اور صادق اور امین تاجر تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں بھی چرائیں ہیں تاکہ امت یہ جان لے کہ کوئی جائز کا م کا کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ شریعت مصطفوی میں کسب حلال مستحسن عمل ہے،اہل و عیال کی کفالت کے لئے کسب حلال کو ایک عظیم نیکی،باعثِ اجرو ثواب عمل قرار دیا گیاوہیں حرام مال اور ناجائز آمدنی سے حاصل ہونے والے رزق اور مال و جائیداد کو انسان کی تباہی،اس کی نیکیوں کی بربادی اور اس کے تباہ کن اثرات کو بھی پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے