حیدرآباد و تلنگانہ

مسلم معاشرے کو سادگی سے زندگی گزارنا ازحد ضروری، اسراف اور فضول خرچی ایک ناسور۔ مولانا ممشاد پاشاہ کا خطاب


حیدرآباد 2 دسمبر(راست) اسلامی تعلیمات میں سادگی کو بہت اہمیت دی گئی ہے،اس لئے کہ سادگی انسان کی فلاح اور کامرانی کی ضامن ہے۔ نفس کو بے جا خواہشات سے روکنے اور کم سے کم سامانِ دنیا سے گزر بسر کرنے کو سادگی کہتے ہیں،انسان جب سادہ طرز زندگی کا راستہ چھوڑ دیتا ہے تو وہ حرص و ہوس اور خواہشات کا غلام بن جاتا ہے۔ وہ بے جا تمنّاؤں کے نتیجے میں مزید کی جستجو اور زیادہ کی طلب میں اپنے آپ کو ہلکان کر بیٹھتا ہے۔ حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دنیا کا ذکر کیا تو حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،کیا تم سنتے نہیں، کیا تم سنتے نہیں، یقینا سادگی ایمان سے ہے، یقینا سادگی ایمان سے ہے۔ نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادر ی الہاشمی ممشاد پاشاہ صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے اہم سنت سادگی ہے۔رہن سہن میں سادگی، نشست وبرخاست میں سادگی، خورد ونوش میں سادگی، لباس وپہناوے میں سادگی، اوڑھنے بچھونے میں سادگی، لوگوں کے ساتھ میل جول اور رکھ رکھاؤ میں سادگی،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے جس گوشہ کو ہم دیکھتے ہیں سادگی ہی سادگی نظر آئے گی۔یہ اس ذات مقدس کی سیرت کا حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی کائنات میں مختار ہے اور اللہ تعالیٰ کا مالک اور ان کو تقسیم فرمانے والے ہیں،بے شمار روایات ہیں جو حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی، تواضع اور مسکنت کا اظہار ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ سلم کے سادہ طرز حیات نے غریبوں، بے کسوں اور مفلوک الحال افراد کو یہ سمجھایا کہ دنیوی اسباب اور مال ومتاع اور اسباب راحت نہ ہونے پر آزردہ خاطر نہ ہوں۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں سادگی کے نمونہ کے طور پر بہت سی نظیریں ملتی ہیں۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا خوردو نوش میں سادگی یہ عالم تھا کہ مختلف قسم کے کھانے تناول نہیں فرماتے بلکہ سادگی کے ساتھ جو بھی موجود ہوتا وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غذا ہوتی،کھانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کی روٹی اور گوشت استعمال فرماتے تھے،پھر یہ غذا بھی بعض وقت موجود نہیں ہوتی۔لباس مبارک میں سادگی کا یہ انداز تھا کہ آرائش وزیبائش اور زیب وزینت کا اہتمام حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی کم کیاہے، عموما ً حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم موٹا، کھردرا لباس زیب تن فرماتے، ایک صحابیؓ نے ایک عمدہ لباس عطا کیا، جس میں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرمائی، اور نماز کے بعد فوراً اسے اتارا او ر لوٹا دیا، دوسرا سادہ لباس زیب تن فرمایا اور ارشاد فرمایا: لے جاؤ اس سے میری نماز میں خلل واقع ہوا۔۔ اپنے لباس میں سادگی اپنانے والے کے متعلق یہ خوش خبری سنائی کہ جو شخص باوجود حیثیت ووسعت کے عمد ہ لباس تواضعا چھوڑ دے، اسے قیامت کے دن تمام مخلوق کے سامنے یہ اختیار دیا جائے کہ وہ ایمان کے جس جوڑے کو چاہے اختیار کرے۔ رہائش میں سادگی کا یہ طرز رہا کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ہی ازواج پاک کے حجرے کچی اینٹوں سے بنے ہوئے تھے۔ بستر مبارک بھی نہایت ہی سادگی سے معمورہوتا کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نرم اور گدے دار بستر کو بالکل ہی پسند نہ فرماتے، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور سے بنی ہوئی چادر پر بلا بستر آرام فرمایا توکبھی خالی بستر پر ہی آرام فرماہوتے۔طرز معشیت اور رہن سہن میں بھی سادگی اپنی مثال آپ تھی کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے کسی چیز میں ممتاز اور نمایاں ہونا پسند نہ فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ بات بھی ناگوار تھی کہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تعظیما کھڑا ہوجائے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم بیمار کی عیادت فرماتے، جنازہ میں شریک ہوتے، گدھے پر سواری فرماتے، غلام کی دعوت قبول فرماتے، اگر جو کی روٹی پر بھی مدعو ہوتے تو اسے بھی قبول فرماتے۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم اگر کہیں تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ ملتی تشریف فرماہوتے،مسجد نبوی شریف کی تعمیر میں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نفس بنفیس شرکت فرمائے۔یہ تو سیرت پاک کے چند نمونے ہیں،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری حیات ظاہری ہی سادگی سے عبارت ہے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت مطہرہ کے ان تابناک پہلوؤں کو اپنے لیے راہِ عمل کے طور پر متعین کریں، اپنی نجی وخانگی زندگی میں سادگی اپنائیں، اس طرح زندگی میں صالحیت آئیگی، اور معاشرہ پر بھی صالح اثرات مرتب ہوں گے،بعض لوگوں کی خام خیالی ہے کہ وہ زمانہ اسلام کا ابتدائی دور تھا،حالات کے اعتبار سے طرز زندگی ہوتا تھا،یہ سمجھنا کافی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،میرے ربّ نے مجھ پر یہ چیز پیش کی کہ وہ مکہ مکرمہ کی وادی بطحاء کو میرے لیے سونا بنا دے، لیکن میں نے کہا: نہیں، اے میرے ربّ! میں ایک دن سیر ہوں گا اور ایک دن بھوکا رہوں گا، جب میں بھوکا ہوں گا تو تیری سامنے لاچاری و بے بسی کا اظہار کروں گا اور تجھے یاد کروں گا، اور جب سیر ہوں گا تو تیری تعریف کروں گا اور تیرا شکر ادا کروں گا۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ موجودہ وقت میں ہمارے معاشرے میں اضطراب،بے چینی،ڈپریشن اور مہلک بیماریوں کا بڑا سبب سادگی سے احترازاورزیادہ سے زیادہ مال و دولت کی طلب ا ور حرص و ہوس کا وہ جذبہ ہے،جو انسان کو کسی پل اطمینان اور سکون سے نہیں رہنے دیتا۔اسلام میں سادہ طرز زندگی کی اہمیت ہی اسی لئے ہے کہ اس سے عجزوانکساری پیدا ہوتی ہے اس کے برخلاف طرز زندگی ناپسندیدہ ہے کہ انسان کو مغرورو متکبر بناتی ہے۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے