شراوستی: اسلام کی بنیاد میں سب سے پہلی چیز توحید ہے ، توحید کا مطلب ہوتا اس کائنات کا بنانے والا اور مالک ایک ہی ہے ۔ اس کا کوئی ساجھا نہیں ہے ۔ وہ اکیلا ہے ۔ کائنات کی ہر چیز اس کی محتاج ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ۔اگر وہ نہ چاہے تو کسی کا کوئ کام نہ بنے اور اگر سب مل کر بھی اس کا کوئی کام روکنا چاہیں تو روک نہ سکیں ۔ وہ اپنی ذات میں بھی تنہا اور یکتا ہے اور صفات میں بھی کوئ اس کا شریک نہیں ۔ یہی عقیدہ دین کی روح ہے ۔ دین اسلام کی ٹھوس بنیاد اسی پر ہے ۔ عقائد کی درستگی علم اور صاحب علم وفضیلت کی صحبت سے ہوتی ہے ۔ لہذا تعلیم دین سمجھنے کے لیے ضروری ہے ۔ان عقائد ونظریات کا اظہار نوجوان عالم دین ڈاکٹر خورشید عالم نے گزشتہ شب منعقد وجشن غوث الوری ونعتیہ مشاعرہ میں کیا ۔
شب گزشتہ شراوستی ضلع کے مصرولیہ حجام پورہ گاؤں میں انجمن غلامان مخدوم سمناں کی جانب سے جشن غوث الوری کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں ملک کے معروف اہل علم ودانش ، صاحبان قلم ، اور زبان آور خطباء جمع ہوئے تھے ۔ نعتیہ مشاعرے کا بھی اہتمام تھا اس لیے خلق کثیر اپنے علماء کے بیانات اور شعراء کے نعتیہ کلام کے شوق میں جمع تھی ۔ عشاء کی نماز کے بعد نقیب ذیشان قاری معصوم رضا قادری بستوی کی نظامت کے ذریعہ سےجلسہ شروع ہوگیا ۔ قاری ارشاد رضوی کی تلاوت کلام پاک کے بعد بارگاہ رسالت مآب ودربار غوثیت میں نعت ومنقبت کے اشعار شعیب رضا مسعودی ،محمد اعجاز قادری۔محمد الیاس برکاتی، محمد عرفان صاحبان نے پیش کیے ۔ پھر ایک نعت شریف القادری نے پیش کرکے ماحول کو خوشگوار بنادیا اس کے بعد علاقے کے جوان عالم دین اور عصری علوم سے لیس ڈاکٹر خورشید عالم نے عوام الناس سے خطاب شروع کیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے مسلم معاشرے کی حالت کو دیکھتے ہوئے توحید اور تعلیم پر بہت ہی شاندار اور نپی تلی گفتگو کی ، اس وقت مسلم معاشرے میں سب زیادہ گراوٹ عقیدہ توحید کے باب میں آئ ہے ۔ یہ بات مسلم ہے کہ اگر توحید مکمل نہیں تو کچھ بھی کام آنے والا نہیں ہے ۔ توحید کا مطلب ہے صرف اللہ کو خالق ومالک جاننا، معبود ومسجود صرف اللہ کی ذات ہے اگر ایک ذرے سے بھی کم تر درجے کا خیال دل میں پیدا ہوجائے تو مقام توحید سے بندہ سیدھے نیچے گرتا ہے ۔ پھر مقام رسالت ہے ۔ علماء فرماتے ہیں یہ دودھاری تلوار پر چلنا ہے ۔۔ ڈاکٹر خورشید صاحب نے اپنی گفتگو میں تعلیم پر خاصہ زور دیا اور عوام کے سامنے بڑے پرسوز انداز سے اپنی بات رکھی کہ اگر اج کے زمانے میں ہم اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے پارہے ہیں تو ہم اس کے ساتھ دشمنی کررہے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید یہ بھی کہا کہ ایک بات سب نوٹ کرلیں کہ اگر آپ اپنے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں اور صرف دنیاوی تعلیم دیتے ہیں تو اس کی عاقبت آپ خود خراب کررہے ہیں اور یہ بات بچے کے لیے بہت زیادہ سخت ہوگی ۔ بہ نسبت اس کے کہ اس سے دنیا چھین لی جائے ۔ آج کے زمانے میں دونوں تعلیم کا ہونا بے حد ضروری ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے عوام مسلمین کو متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایسے کالجز ہیں ہی نہیں جہاں دینی تعلیم کا بھی بہت اچھا انتظام ہو لیکن ایسے بہت سے مدارس ہیں جہاں دنیاوی تعلیم کا مکمل انتظام ہے ۔ اس لیے میری گزراش ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھنے بھیجیں اور کوشش کریں کہ بچہ مدرسہ جائے ۔
اس کے بعد نعتیہ مشاعرہ شروع ہوا. عوام گوش بر آواز تھی ، شعراء تیار بیٹھے خصوصی شاعر قاری امیر حمزہ صاحب نے عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوب وہ نغمہ سرائی کی ہر طرف سے حق ہو اور سبحان اللہ ماشاءاللہ کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔ ایسا لگ رہا تھا یہ دھرتی گلزار بن گئی ہے ۔
اس کے علاوہ اعجاز اکونوی
کرامت گونڈوی
مرشد رضا بلرامپوری
محمد سعید ضیائی
محمد سہراب اشرفی نے بھی اپنا اپنا کلام پیش کیا اور داد تحسین وصول کیا ۔ آخر میں درودوسلام اور حضرت علامہ ڈاکٹر ہمدم کی دعاء پر جلسہ اختتام کو پہونچا ۔
منتظمین میں خاص طور پر
معین الدین چودھری ۔کمال الدین۔ شہنواز حسین۔رئیس احمد اشرفی۔ سلیم سیٹھ ٹمپو والے ۔ غفور الدین ۔ سمیر الدین۔ عبد الکریم ۔ کلیم چودھری ۔ رضی الدین۔ ایام علی ۔ فرزند علی۔ تاج الدین ۔ محمد علی ۔انیس احمد اشرفی ۔ محمد عظیم ۔ ماسٹر قمر الدین ۔ معین الدین ۔شہیر الدین ۔محمد اسرار ۔ کرامت علی ۔ محمد صدام ۔ قسمت علی ۔ محرم علی ۔ شعبان علی۔ محمد رضوان ۔ محمد ریاض ۔ صابر علی ۔ میسر علی ۔ محمد حسین ۔ رجب علی ۔ صلاح الدین۔ محمد حلیم ۔ محمد جمیل ۔ محمد فاروق ۔ نبی احمد ۔ محمد سراج ۔محمد صغیر ۔ محمد بلال ۔ محمد وسیم ۔انور رضا۔ محمد اعظم وغیرہ قابل مبارکباد ہیں