- دینی مدارس مسلمانوں کے اسلامی مراکز اور دین کے قلعے
حیدرآباد 9ستمبر (راست) ملک عزیز ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کروانے میں دینی مدرسوں کے فارغین علماء کرام نے بے شمار قربانیاں پیش کی ہیں،اس بات کو فراموش نہیں کیاجاسکتا کہ انہی قربانیوں کی بدولت غلام ملک آزاد ملک میں تبدیل ہوا، ااج نشہ اقتدار میں مست افراد دینی مدارس کے خلاف زہرافشانی کرتے ہوئے تاریخ کو جھٹلانے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کے خلاف مرکزی و ریاستی حکومتیں نئے نئے قوانین وضع کررہی ہیں،یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ تقسیم ہند کی مخالفت فارغین مدرسہ علماء کرام نے کی، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر انگریزوں کے خلاف تقریریں فارغین مدرسہ علماء کرام نے کی، ملک کی آزادی کے بعد جب دستور ہند مرتب ہوا تو سب سے پہلے خیرمقدم فارغین مدرسہ علماء کرام نے کیا، قدم قدم پر ملک سے حب الوطنی کا ثبوت فارغین مدرسہ علماء کرام نے دیا اور ہزاروں فارغین مدرسہ علماء کرام نے ملک کو آزاد کرانے کے لئے اپنی جانیں قربان کیں ان کا تعلق اسی دینی مدارس سے تھا جن پر آج کچھ فرقہ پرست ذہنیت کے لوگ گھناؤنے الزامات لگارہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ دینی مدارس میں میں ملک سے وفاداری کی تعلیم دی جاتی ہے امن و بھائی چارگی کا پیغام دیا جاتا ہے ملک سے محبت تو مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح شامل ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آیا ہے تو مسلمانوں نے آگے بڑھ کر وطن کی حفاظت کی ہے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیا ہے اس لئے نہ تو مسلمانوں پر شک کی گنجائش ہے اور نہ ہی دینی مدارس پر شک کی گنجائش ہے۔دینی مدارس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اسلام کی،دینی مدارس عہد نبوی سے لے کر آج تک اپنے ایک مخصوص انداز سے آزاد چلے آ رہے ہیں۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پہلا دینی مدرسہ وہ مخصوص چبو ترہ جس کو ”صُفّہ ”کہا جا تا ہے اور اس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم کتاب تعلیم حکمت اور تز کیہ نفس حاصل کرنے والے حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت انس ؓ سمیت 70کے قریب صحابہ کرام ؓ ”اصحابِ صُفّہ ”اور سب سے پہلے دینی طا لب علم کہلاتے ہیں۔دینی مدارس کا اپنا ایک مخصوص نصاب ہوتا ہے جو انتہائی پاکیزہ اور نورانی ماحول میں پڑھا یا جا تا ہے جس میں مستند عالم دین کا مقام حاصل کرنے کے لئے عربی وفارسی، صرف و نحو، قرآن و حدیث، تفسیر، فقہ و اصول فقہ، معانی و ادب، منطق و فلسفہ جیسے ضروری علوم کا ایک مکمل نصا ب پڑھنے کے بعد وہ عالم دین کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس کا ایک رخ اسلام کے قلعے، سرچشمہ ہدایت،دین کی پناہ گاہ اور دین کی اشاعت کا بہت بڑا ذریعہ ہیں تو دوسرارخ دنیا کاسب سے بڑا این جی او نیٹ ورک ہے،جس کے ذریعہ لاکھوں طلبہ و طالبا ت بلامعاوضہ زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کے ساتھ مفت رہائش،خوراک اور مفت طبی سہولیات سے استفادہ کرتے ہیں۔ایک طرح سے یہ دینی مدارس حکومت کا تعاون کرتے ہیں جس پر حکومتیں ان دینی مدارس کے چلانے والوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے،اس کے بجائے انہی دینی مدارس کو بند کرنے کی بات کرنا یا جدید تعلیم نظام کو اپنانے کے لئے زبردستی کرنا یہ جمہوریت پر بدنما داغ ہے۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہاکہ دینی مدارس کی مثال ایسے کسان کی ہے جو زمین کے ہموار کرنے، فصل کے اگانے، کٹائی سے لے کر اس غلہ اور اناج کے بازار پہونچنے تک اپنی ساری توانائی اور قوت اس کے پیچھے صرف کرتا ہے، جو غلہ تمام انسانوں کی آسودگی اور بھوک مٹانے کا سبب بنتا ہے، دین کے تمام شعبوں کو زندہ، بیدار اور متحرک رکھنے میں دینی مدارس کا اہم کردار ہے۔ سنگھ پریوار کا مطمحِ نظر یہی ہے کہ ہندوستان میں مسلمان برائے نام مسلمان بن کر رہیں۔ دینی مدارس کو اپنے زیرِ اثر لے کر حکومت اس میں من مانی ردّ و بدل کرے گی اور مدارس کے ذمہ داروں کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ حکومت کے منظورہ نصاب کے مطابق ہی طلبا کو تعلیم دیں۔ دینی مدارس کی جدید کاری اور حکومتی امداد کے نام پر یہ سب کیا جا رہا ہے۔دینی مدارس کے حوالے سے کے شریر عزائم کے سدّباب کے لئے ملت اسلامیہ کو پوری سنجیدگی کے ساتھ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے دینی مدارس کی بقا وتحفظ اور ترقی کے لئے متحدہ اور نتیجہ خیز لائحہ عمل ترتیب دے کر اسے عملی جامہ پہنانا ہوگا۔