مہراج گنج

اولاد بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم و تربیت والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ مولانا ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم

شبیر احمد نظامی
مہراج گنج/بلرام پور، ہماری آواز

گزشتہ روز ضلع بلرام پور میں واقع مدرسہ عثمانیہ افضل المدارس ملدہ پچپڑوا میں تعلیمی بیداری کانفرنس کے زیر اہتمام عنوان عصر حاضر میں علم دین و تعلیم نسواں کی اہمیت اور ہماری ذمہ داریاں کا انعقاد کیا گیا۔
کانفرنس کی سرپرستی الحاج پیر محمد خان نعیمی ناظم اعلیٰ مدرسہ ہذا و صدارت مولانا حامد حسین سابق صدر المدرسین مدرسہ ہذا و حمایت نظام الدین صدر اعلیٰ و قیادت مولانا حقیق اللہ ناظم تعلیمات مدرسہ ہذا نے کیا۔ وہیں نظامت کے فرائض مولانا مجیب اشرف نعیمی استاذ مدرسہ ہذا اور تلاوت قرآن مجید حافظ و قاری فقیر محمد نظامی استاذ مدرسہ ہذا نے انجام دیا۔ کانفرنس میں حافظ و قاری عبد القیوم و حافظ محمد ارشد ضیائی نے نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیا۔ افتتاحی خطاب مدرسہ ہذا کے مؤقر استاذ مولانا محمد شبیر برکاتی نے کیا۔ آخر میں مقرر خصوصی و مہمان خصوصی مولانا ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم شعبہ علوم اسلامیہ ہمدرد یونیورسٹی دہلی کا پر مغز خطاب ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ایک باشعور معاشرہ بنانے کیلئے تعلیم بے حد ضروری ہے۔ اس کے حصول کیلئے عمر کی قید وشرط سے آزاد ہوکر ایک کم سِن بچے بلکہ سو سال کےبوڑھے کو بھی زیورِ علم سے آراستہ ہونا چاہیئے۔ تعلیم کی ضرورت واہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو اللہ پاک نے اس کے پہلے ہی لفظ میں حصولِ علم کا حکم دیتے ہوئے ارشادفرمایا : اقراء (پڑھو) یعنی علم حاصل کرو۔ فی زمانہ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی اپنی ضرورت کے مسائل سیکھنے چاہئیں۔ دورِ نبوی میں جہاں صحابۂ کرام اپنی علمی پیاس بجھانے کیلئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوتے وہیں صحابیات کا شوقِ علم بھی دیدنی ہوا کرتا تھا۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتینِ اسلام عبادت وریاضت کے ساتھ ساتھ علمِ حدیث وتفسیر، درس وتدیس، وعظ وتقریر کے ذریعے اپنی خدمات سرانجام دے کر علمی مقام میں کئی مردوں سے ممتاز قرار پائیں۔
اولاد بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم و تربیت والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ اگر انہیں بچپن ہی سے دینی ماحول فراہم کیا جائے تو ایسی بیٹیاں نیک پرہیز گار ، والدین کی فرمانبردار اور پاکیزہ کردار کی حامل بن کر خاندان اور شادی کے بعد سسرال میں ماں باپ کی عزت رکھتی ہیں اور اگراس نازک دور میں اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت نہ کی جائے توجوانی میں یہی بیٹیاں ماں باپ کے لئے باعثِ عار بن سکتی ہیں۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ اس انتظار میں نہ بیٹھیں کہ ابھی تو میری بیٹی بہت چھوٹی ہے کچھ سمجھدار ہوجائے تو تربیت کریں گے۔
ایک دن کی بچی سے لے کرجوانی تک ماں باپ کی تربیت کی ضرورت رہتی ہے۔
فی زمانہ تعلیم ایک لڑکی کیلئے اس کی زندگی کےمختلف گوشوں میں کام آتی ہے مگر یہ بھی یادرہے کہ صرف عصری علوم پر اکتفا کرنا اور ان میں اپنی مہارت وصلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئےکسی اچھے عہدے پر فائز ہونا ہی روشن مستقبل کی ضمانت نہیں بلکہ عورت اگر بیٹی کی حیثیت سےکسی کی لختِ جگر ہے تو کل اسی نے کسی کی شریک حیات بھی بننا ہے۔ بیوی کے بعد ماں کاکردار نبھاکر اولاد کی تربیت بھی کرنی ہے۔ پھر اچھی بہو اور ایک اچھی ساس کی حیثیت سے بھی زندگی بسر کرنی ہے تو صرف عصری علوم کے حصول سے ہی ایک عورت اپنی یہ ذمہ داریاں اچھی طرح نہیں نبھا سکتی ہے بلکہ اس کو ایک اطاعت گزار بیوی ، خدمت گزار بہواور ایک سلیقہ شعار ماں بننے کے لئے دینی تعلیمات سے آشنا ہونا بے حد ضروری ہے۔ اس موقعہ پر مدرسہ ہذا کے اساتذہ و طلباء کے علاوہ کثیر تعداد میں علاقائی عوام شریک رہے۔ مذکورہ کانفرنس کی خبر ریاض احمد خاں جنرل سیکریٹری آل انڈیا ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ یونٹ بلرام پور نے نمائندہ کو دیا ہے۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے