حیدرآباد 13مئی (راست)
علم کی فضیلت و عظمت،ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس انداز میں پائی جاتی ہے اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی،قرآن حکیم کا پہلا لفظ جو اللہ تعالیٰ نے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پاک پر نازل فرمایا وہ اقراء یعنی پڑھئے ہے،اور قرآن حکیم کی پہلی پانچ آیات میں قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت کا اظہار کیا گیا۔ قرآن حکیم میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات محمودہ بیان کی ہے وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ کی ایک غرض یہ بیان فرمائی کہ جیسے ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دین کی تھوڑی فہم حاصل کرنا، عبادت کی کثرت سے بہتر ہے۔نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا اللہ تعالیٰ نے انسان کو کامل و مکمل بنانے کے لئے مؤثر انتظام فرمایا،انبیاء کرام و مرسلین عظام کاسلسلہ بعثت قائم فرمایا،تاکہ نیک و صالح معاشرہ کی تشکیل ہو،اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجے ہوئے قوانین اورانبیاء کرام ومرسلین عظام کے ذریعہ، ان کی تلقین و تشریح ہی کا دوسرا نام دینی تعلیم ہے، اب اگر کوئی قوم اپنے ہی دین کی تعلیم سے منھ پھیرکر، عصری تعلیم کے حصول میں رات دن سرگرداں ہوجائے اور اس کو ہی اپنی زندگی کی معراج سمجھنے لگے تو اس کو وقتیہ اور دنیوی فوائد اور عہدے ومناصب یقینا حاصل ہوجائیں گے لیکن اخروی فوائد سے نہ صرف محروم ہوجائیں گے بلکہ آئندہ کی دائمی حیات کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، علم کی فرضیت کا مطلب یہ ہے کہدین کا اتنا علم جس سے حلال و حرام کی پہچان ہوجائے، ہر مسلمان پر حاصل کرنا فرض ہے اور باقاعدہ مکمل عالم دین بننا فرض کفایہ ہے،ضرورت دین سے مراد ایسے امور ہیں، جن کے ذریعے حلال امور شریعت کے طریقے پر انجام دیے جاسکیں اور حرام امور سے بچا جاسکے، امام نوویؒ فرماتے ہیں انسان پر اتنا علم حاصل کرنا فرض ہے کہ جس کے بغیر احکام کی ادائے گی ممکن نہ ہو، مثلا: وضوء اور نماز وغیرہ کی ادائے گی کے طریقے کا علم۔کم از کم اتنا علم حاصل کریں جن سے دین پر صحیح طور سے عمل پیرا ہوسکیں اور شریعت کے مطالبات کو روبہ عمل لاکر نگاہِ شریعت میں معتبر بن سکیں، پھر اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب بن کر، اپنی عاقبت سدھارکر، زندگی گذارسکیں، جو ایک مسلمان کانصب العین ہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب پر مضبوطی سے قائم ہیں،اورآج مسلمانوں کا بہت بڑا طبقہ ایسا ملے گاجو حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک سے بالکل ناواقف ہے، بہت سے لوگوں کو نماز ودیگر عبادات کے فرائض وسنن کا علم نہیں، اسلام کے بنیادی عقائد کی معرفت نہیں، ہمارے بہت سے مسلم بچے ایسے ملیں گے کہ وہ کلمہ تک نہیں جانتے۔اس زمانہ میں ہمارے نوجوانوں کے دماغ میں یہ بات آگئی ہے کہ صرف قرآن و حدیث علم نہیں بلکہ دنیوی علوم و فنون جس کا تعلق ہماری معاش سے ہے۔نتیجتا ً ایک عمر گذرجاتی ہے لیکن مقصد زندگی سے بے خبر رہتے ہیں اور بہت سارے لوگ وضو اور غسل کے فرائض سے بھی نا واقف ہیں جو ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے کافی شرمناک ہے،یہاں تک کے بے دینی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ موجودہ وقت میں یہ نہایت اہم و ضروری ہے کہ دینی مدارس دین کے اسلام کے قلعے ہیں،اس کو مستحکم کریں،اپنے بچوں کو دینی مدارس میں داخل کروائیں، دینی تعلیم سے آشنا کروائیں،اسلام اور اس کی حقانیت سے آگاہ کریں، نماز، روزہ وضو،غسل اور ضروری مسائل سے واقفیت کرائیں تاکہ ان کا اور ان کے بعد آنے والی نسلوں کی دنیا و آخرت آباد ہو سکے اور ہر ایک مسلمان یہ عہد کریں کہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ اپنے بچوں کو دینی تعلیم بھی ضرور دلوائیں گے۔