حسن نیت اور اخلاص کی تلقین۔ مولانا ممشاد پاشاہ کا خطاب
حیدرآباد 6 مئی (راست) مسلمان کی عبادتوں اور اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے،اگر نیت خالص ہوگی تو اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوں گے اور اگر نیت خالص نہ ہو بلکہ ریاکاری و نام و نمود مقصود ہے تو بجائے قبولیت موجب وبال بنیں گے،رِیا کے بہت درجے ہیں،ہر درجے کا علیحدہ حکم ہے،بعض ریا شرک اصغر ہیں،بعض ریا حرام، بعض ریا مکروہ اور بعض ثواب۔ لیکن جب رِیا مطلقاً بولی جاتی ہے تو اس سے ممنوع رِیا مراد ہوتی ہے۔ایک روایت میں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے بارے میں شرک کا خوف ظاہر فرمایا،عرض کیا گیا،کیا آپ کے وصال ظاہری کے بعد بھی آپ کی امت شرک میں مبتلا ہوجائیگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں! پھر یہ وضاحت فرمائی کہ وہ لوگ چاند سورج کی پتھر اور بتوں کی پرستش نہیں کریں گے، لیکن ریا کاری کریں گے اور لوگوں کو دکھانے کیلئے نیک کام کریں گے۔نبیرۂ حضرت سید زرد علی شاہ صاحب مہاجرمکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ بانی و صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن، مہدی پٹنم اور مسجد محمودیہ ناغڑ، یاقوت پورہ میں قبل از جمعہ خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ جو عمل اس کی رضا و خوشنودی اور آخرت میں ثواب کی امیدکے حصول کے بجائے، نام و نمود اور ریاکاری و دکھاوے کے جذبے سے انجام دیا جائے، تو اس عمل پر کوئی ثواب نہیں ملتا اور وہ عمل ضایع اور برباد ہو جاتا ہے۔اسی طرح وہ صدقہ و خیرات بھی باطل اور کالعدم قرارپاتا ہے اور ثواب سے محرومی کا باعث بن جاتا ہے، جس کے بعد احسان جتایا جائے اور حاجت مند کو دکھ دیا جائے۔اللہ تعالیٰ نے ریاکاری کی مذمت قرآن حکیم میں بیان فرمائی ہے، فرماتا ہے،تو جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو اسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔اعمال میں چھپنے ہوئے اس شرک کو حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے فتنہ دجال سے بھی زیادہ خطرناک قراردیا ہے۔فرمایا کیا تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جو میرے نزدیک تمہارے لئے دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے؟ عرض کیاگیا، یا رسول اللہ! ضرور بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”شرک ِخفی یعنی پوشیدہ شرک اس کی ایک صورت یہ کہ آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا ہو، پھر اس بناپر اپنی نمازکو مزین کردے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن تین بندے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ ان میں سے پہلا شخص ایسا ہوگا جو کہ شہید ہوگا،اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں دی جانے والی نعمتیں گنوائے گا، شہید نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا تو نے ان سب نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا، میں نے تیری راہ میں اپنی جان قربان کردی۔رب فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے جان اس لیے قربان کی کہ لوگ تجھے بہادر اور شہید کہیں، تو شہید کہلا چکا۔ فرشتو! لے جاؤ اسے اور ڈال دو جہنم میں، فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔ پھر ایک دوسرا شخص رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگا جو عالم و قاری ہوگا، رب تعالیٰ اسے بھی دنیا میں دی گئی نعمتیں گنوائے گا، وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔پھر رب تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا میں نے علم سیکھا اور سکھایا، قرآن پاک پڑھا اور پڑھایا۔رب تعالیٰ فرمائے گا تو نے علم سیکھا اور سکھایا اس غرض سے کہ عالم کہلایا جائے، قرآن پاک اس لیے پڑھا اور پڑھایا کہ قاری کہلایا جائے، تو دنیا میں تو کہلا چکا۔ فرشتو! لے جاؤ اسے اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔پھر آخر میں ایک سخی، رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی دنیا میں دی جانے والی نعمتیں یاد دلوائے گا۔ وہ نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر رب فرمائے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا، اے رب! میں نے اپنی ساری دولت تیری مخلوق پر لٹا دی۔ رب تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے دولت اس لیے خرچ کی کہ لوگ تجھے سخی کہیں، تو دنیا میں سخی کہلا چکا۔ فرشتو لے جاؤ،اس سخی کو اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے“۔اس طویل حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت وہی قابل قبول ہے جو خالصتاً اللہ عزوجل کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کی جائے،جب کہ ایسی عبادت جو اللہ کے بجائے کسی اور کو دکھانے کے لیے کی جائے، وہ خواہ کوئی بھی کرے،جہنم کا ایندھن ثابت ہوگی۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ ریاکاری اور نام ونمود ایسا مذموم وصف ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان کے بڑے سے بڑے نیک اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہونے سے رہ جاتے ہیں، کچھ طریقے ہیں اگر ان کو اپنا لیا جائے تو اس مذموم وصف سے نجات پائی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کی عادت ڈالیں، ریاکاری کے نقصانات کو پیش نظر رکھیں، ان اسباب کا خاتمہ کریں جن کی وجہ سے ریاکاری پیدا ہوتی ہے، اپنے اندر اخلاص و للہیت پیدا کریں، اپنی نیت کی حفاظت کریں، دوران عبادت شیطانی وسوسوں سے خود کو بچائیں، تنہا ہوں یا مجمع میں یکساں عمل کی عادت ڈالیں،اپنی نیکیوں کو چھپانے کی کوشش کریں،امیر لوگ یا خود کو امیر بناکر پیش کرنے والوں کی صحبت کو زہر سمجھیں اور خاص طور پر اچھی صحبت اختیار کریں،اس لئے کہ اچھی صحبت اچھا اور بری صحبت برا اثر رکھتی ہے۔