گونڈہ

جامعہ اشرفیہ پر انتظامیہ کا بلڈوزر چلنا قابل مذمت ہے

•دینی، علمی، سیاسی شخصیات کا مذمتی بیان

گونڈہ: 27 اپریل، ہماری آواز

دو سال تک کورونا کے قہر سے دہشت زدہ رہنے والے اہل وطن میں سے بعض کو، عین اُس دن جب دہلی میں کورونا کے ایک ہزار سے زائد نئے کیسیز کی خبر چونکانے والی تھی، دہلی ہی کی بل ڈوزر سیاست نے کچھ اس طرح چونکایا کہ لوگ کورونا کی ازسرنو دستک کو بھول گئے اور بل ڈوزروں کا شور سننے لگے۔ شمالی دہلی کی میونسپل کارپوریشن کے احکام پر جہانگیر پوری علاقے میں جہاں سنیچر کو فرقہ وارانہ تصادم ہوا تھا، بیک وقت کئی بل ڈوزر آدھمکے اور دیکھتے ہی دیکھتے مکانوں اور دکانوں کو توڑنا پھوڑنا شروع کردیا۔ ان میں ایسی دکانیں بھی تھیں جو قانونی بتائی جارہی ہیں۔ اس کی اطلاع دینے اور دستاویزی شواہد پیش کرنے کے باوجود کہ یہ قانونی ہے، میونسپل کارپوریشن کے پرجوش عملے کا جوش کم نہیں ہورہاہے۔وہ زبردستی بلڈوزر چلا رہے ہیں ۔
ایسے ہی ہندوستان کی مشہور عربی یونیورسٹی جامعہ اشرفیہ مبارکپور ضلع اعظم گڑھ میں بھی انتظامیہ کا بلڈوزر چلا ہے ۔ جس سے امت اسلامیہ میں بے چینی پائی گئی۔علماء کرام نے مذمتی تحاریر اور میٹنگیں کی۔اسی سلسلے میں رضا اکیڈمی ضلع گونڈہ کے صدر حضرت مولانا محمد اسرار احمد فیضی واحدی ناظم اعلی جامعہ امام اعظم ابوحنیفہ نسواں عربی کالج علی پور بازار ضلع گونڈہ نے کہا کہ حکومت کا یہ رویہ نا قابل برداشت ہے۔حکومت کو چاہئے کہ اس طرح خاص طبقے پر ظلم و جبر کرنے سے باز آ جائے کیونکہ الجامعۃ الاشرفیہ کے اسٹاف کوارٹر کے پاس بلڈوزر چلائے جانے سے عالم اسلام سمیت پورے ملک میں زبردست غم و غصہ ہے۔اور جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے منتظمین اس مسئلے کو قانونی چارہ جوئی سے جلد از جلد نپٹا لیں۔ نیز رضااکیڈمی ضلع گونڈہ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا عبدالرشید مصباحی ناظم اعلی جامعہ سکینہ اشرف البنات دھانے پور گونڈہ نے اپنے مذمتی بیان میں کہا جب سے اترپردیش میں یوگی حکومت آئی ہے تب سے ہر چہار جانب سے مسلمانوں کو ستایا جا رہا ہے کبھی مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر کو لے کر اور کبھی بلڈوزر کے سہارے ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بنایا جارہاہے حد تب ہوگئی جب مرکز علم وفن مادر علمی الجامعۃ الاشرفیہ عربی یونیورسٹی مبارک پور میں انتظامیہ کا بلڈوزر چلا۔اگر چہ بروقت کارروائی روک دی گئی ہے۔مگر سبھی جانتے ہیں کہ جامعہ اشرفیہ اہلسنت والجماعت کی ناک کی حیثیت رکھتاہے ۔آج وہاں بلڈوزر چلنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مستقبل میں مدارس اسلامیہ خطرے میں دکھائی دے رہے ہیں لہذا ہم حکومت اترپردیش سے گذارش کرتے ہیں اس طرح کی ناقابل بیان حرکت کو چھوڑ دے کیونکہ جامعہ اشرفیہ کے ساتھ پورے ملک کا مسلمان کھڑا ہے ۔جب کہ مولانا محمد قمرانجم فیضی چیف ایڈیٹر مجلہ جام میر بلگرام شریف نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ مسلمانوں کی عظیم دینی دانش گاہ ہزاروں علماء کرام دانشوران عظام کی پرورش و پرداخت کرنے والی دینی علمی ادبی مرکزی درسگاہ الجامعة الاشرفیہ مبارکپور ضلع اعظم گڑھ ہے۔جس کے بنانے والے والوں نے اس کی سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کہا تھا کہ یہ وہ دینی قلعہ ہے جس کی کوئی ایک اینٹ کھسکائے گا تو اس کی دو اینٹ کھسک جائے گی۔ان نفوس قدسیہ کی باتیں ہوائی نہیں ہوتی تھیں بلکہ حرف آخر ہوا کرتی تھیں اسی قبیل کے ایک بزرگ نے کانگریس پارٹی کے عروج کے دنوں میں نسبندی کے مسلہ پر کہا تھا کہ حکومت بدل سکتی ہے مگر فتوی نہیں ۔زمانے نے دیکھا کہ کانگریس کی حکومت کا خاتمہ ایسا ہوا کہ ابھی تک نہیں سنبھل نہیں پائی ہے۔لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کی بھی الٹی گنتی کا الٹی میٹم آگیا ہے۔تم نے ایک اینٹ کھسکانے کی کوشش کی ہے آگے دیکھئے تمہارے ساتھ کیا ہوتاہے۔خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔وہ جب رسی کو ڈھیل دیتا ہے تب تک تمھاری ریشہ دوانیاں ہیں مگر جب وہ کھینچ لے تو اس کی رسی سے کوئی چھڑا نہیں پائے گا۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ مسلمانوں کے عظیم علمی قلعے پر محاصرہ کرنا ترک کرے ورنہ علماء کرام، دانشوران علم وفن کا عظیم احتجاج ہوگا۔۔۔

اپنے وہاٹس ایپ پر تازہ ترین خبریں پانے کے لیے یہاں کلک کریںْ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے